اگرچہ جج ارشد ملک کے ویڈیو لنک اسکینڈل برپا ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں معطل کر دیا تو لاہور ہائیکورٹ نے انہیں او ایس ڈی بنا کر ضابطہ¿ اخلاق کی تحقیقات شروع کر دی بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے چیف جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں سات ججوں جسٹس منیر بھٹی، جسٹس شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد اور جسٹس علی باقر نجفی نے باضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی بناءپر جج ارشد ملک کو برطرف کر دیا ہے لیکن رپورٹ میں یہ فیصلہ نہ کیا گیاکہ جج ارشد ملک کے اقرار جرم کے مطابق وہ کون سی طاقتیں تھیں جنہوں نے جج ارشد ملک کو بلیک میل کر کے دباﺅ میں لا کر نوازشریف کے خلاف غلط فیصلہ کرایا ہے اگر بلیک میلر کے بارے میں ثابت ہو جاتا تو جج ارشد ملک مکمل طور پر بے گناہ اور بے قصور پائے جاتے ،سارا ملبہ بلیک میلر اور دباﺅ ڈالنے والوں پر آتا مگر ایسا نہ ہوا نا ہی ہوگا جو آئے دن پاکستان کے آئینی اداروں کے اہلکاروں کو ڈرا اور دھمکا کر کام لے رہے ہیں ،اس برطرفی سے یہ ثابت ہو گیا کہ ججوں کو مسلسل دباﺅ کا سامنا ہے جس کا اظہار اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی اور سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھگت چکے ہیں یا بھگت رہے ہیں یا پھر حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابقہ اعلیٰ جج اعجاز چودھری نے پاکستان کے مشہور صحافی سہیل و ڑائچ کے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ عدلیہ پر دباﺅ ہوتا ہے جس کا ذکر پاکستان کے مشہور سیاستدان جاوید ہاشمی کر چکے ہیں کہ اب فوج کی بجائے عدلیہ سے جوڈیشل مارشل لا لگے گا جو سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی شکل میں لگا ہوا نظر آیا جنہوں نے سپریم کورٹ کو جونیئر کورٹ بنا کر نوازشریف کو ایک ایسے مقدمے میں نا اہل قرار دیدیا جس کا کوئی ہاتھ اور پیر نہ تھا کہ نوازشریف نے اقامہ ابن پانامہ کیس میں اپنے بیٹے کی کمپنی فلیگ شپ میں ملازمت اختیار کرتے ہوئے تنخواہ کیوں نہ لی نا ہی انہوں نے وصول کردہ تنخواہ کا ذکر کیا ہے یہ جانتے ہوئے اول یہ مقدمہ ٹیکس کورٹ کا ہے، دوئم جو پیسے نہ لئے جائیں وہ اثاثہ نہیں کہلاتے ہیں، سوئم قانون کی بجائے امریکن بلیک ڈکشنری کی تعریف کو استعمال کیا گیا جو قانون میں ایک تجویز کہلاتی ہو غلط یا صحیح ہو سکتی ہے تاہم نیب ایک نیم فوجی ادارہ ہے جس کی بنیاد جنرل مشرف نے رکھی تھی جو آئین اور پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں بنایا گیا تھا جس کے جج اور اہلکار آئے دن ذاتی دشمنی اور سیاسی انتقام کی خاطر ملک کے استادوں، سیاستدانوں، ماہرین کو بلیک میل کر رہے ہیں جن کی یکطرفہ کارروائیاں عروج پر ہیں اور کارکردگی زیرو ہے جن پر ریکوری اور اخراجات زیادہ خرچ ہو رہے ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے وزیر اور مشیر، ادویات، آٹا، چینی، گھی اسمگلنگ، چوری، فراڈ میں ملوث ہیں مگر نیب نے ان کےخلاف کوئی مقدمہ نہیں بنایا ہے، چینی اسکینڈل کا سب سے بڑا مجرم جہانگیر ترین کو لندن بھجوا دیا گیا ہے علیم خان کو جیل سے باہر نکال کر وزیر بنا دیا گیا، داﺅد رزاق، بابر اعوان، زلفی بخاری، فہمیدہ مرزا، پرویز خٹک، خسرو بختیار اور دوسرے لوگ کرپشن میں ملوث ہیں بہر حال جج ارشد ملک کی برطرفی کے بڑے اثرات مرتب ہونگے جس میں انہوں نے اقرار جرم کیا ہے کہ انہوں نے دباﺅ میں آکر نوازشریف کو العزیزیہ کیس میں سزا دی ہے جبکہ فلیگ شپ میں بری کر دیا تھا جبکہ سپریم کورٹ فلیگ شپ میں نوازشریف کو نا اہل قرار دے چکی ہے جس کے بعد قانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں میں سوالات اُٹھ چکے ہیں کہ اب اس کے فلیگ شپ اور العزیزیہ کیس کا کیا ہوگا جو پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کیلئے زیر سماعت ہے جس میں نوازشریف کی لیگل ٹیم نئی شہادت پیش کرےگی کہ چونکہ جج ارشد ملک نے دباﺅ میں آکر نوازشریف کو سزا دی تھی جس کا ثبوت ان کی برطرفی ہے لہٰذا نوازشریف کو باعزت بری کیا جائے جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ بری بھی کر سکتا ہے یا از سر نو کیس کیس ماعت کر سکتا ہے ۔رہا مسئلہ فلیگ شپ کی از سر نو سماعت کا تو ملزم کو شک کی بناءپر فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ جس میں عدلیہ پہلے ہی بری کر چکی ہے جو ویسے بھی کوئی مقدمہ نہیں بنتا ہے کہ ایک بیرون ملک کمپنی کا مقدمہ پاکستان میں چلایا جائے کہ نوازشریف نے اپنے بیٹے کی کمپنی میں ملازم تھا جو صرف اور صرف اقامہ کےلئے ملازم رکھا گیا تھا تاکہ آنے جانے کی اجازت رہے ورنہ کون باپ اپنے بیٹے سے تنخواہ لیتا ہے یہ ایک نیب کا شوشہ تھا جس کو عدالت میں استعمال کیا گیا جس میں عدالت نے بھی قانون کی بجائے ڈکشنری کا سہارا لیا۔ جس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔
قصہ¿ مختصر جج ارشد ملک کی برطرفی اب عدالتوں کیلئے چیلنج بن کر سامنے آئی ہے کہ کیا ججوں کو بلیک میل کر کے ان کو دباﺅ میں لا کر عدالتی فیصلوں کا سلسلہ جاری رہے گا تو پھر قانون اور انصاف کا کیا ہوگا خدانخواستہ اگر جج ارشد ملک نوازشریف کو کسی سنگین مقدمے میں پھانسی دے چکے ہوتے اور وہ پھانسی چڑھ چکے ہوتے تو یہ ویڈیو اسکینڈل نکل کر باہر آتا تو پھر کیا ہوتا کہ آج ایک اور بھٹو جوڈیشل قتل کہلاتا جس طرح بھٹو کو پھانسی دینے والا ایک جج نسیم حسن شاہ بعد میں پاکستان کی گلیوں میں روتا پیٹتا نظر آیا ہے کہ مجھ سے فوجی جنتا نے دباﺅ میں لا کر بھٹو کو پھانسی دلوائی تھی لہٰذا آج جج ارشد ملک بھی ماتم کر رہا ہوتا لہٰذا عدلیہ کے ججوں کو جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز چودھری کی طرح سچ بولنا ہوگا تاکہ پاکستان میں ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کا وجود میں لایا جا سکے۔ جس کیلئے دنیا کی بہت بڑی وکلاءتحریک نے جنم لیا تھا جس کی بناءپر عدلیہ غیر مشروط طور پر بحال ہوئی تھی مگر پاکستان کی عدلیہ آزاد نہیں ہے جس سے جسٹس منیر احمد جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس ثاقب نثار جیسے فیصلے لے کر عدلیہ کو بے دردی جنرل بنا دیا گیا ہے جس میں بھیڑیوں نے بھیڑوں کی کھال پہن کر ملکی سیاستدانوں کو کھا رہے ہیں۔
٭٭٭