قرضوں کی بجائے برآمدات پر معیشت کی استواری

0
136

وزیر اعظم عمران خان نے ملکی ترقی کو کراچی شہر کی ترقی کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ اس وقت تک معیشت بہتر نہیں ہو سکتی جب تک برآمدات میں اضافہ نہ کیا جائے۔ وزیر اعظم ان دنوں کئی محاذوں پر بیک وقت برسرپیکار ہیں۔ کرونا وائرس‘ بھارت سے کشمیر اور شہریت بل کے معاملات پر ہدایات جاری کر رہے ہیں ‘ امریکہ کو افغانستان سے انخلا کا موقع دینے کے بعد پاکستان کے لئے افغانستان کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ‘ آٹا اور گندم کے بحران کے بعد ہنگامی بنیادوں پر مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں اور ساتھ ہی قرضوں میں جکڑی ملکی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی سعی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک پر 90ارب ڈالر کا قرضہ تھا‘ گردشی قرضہ ایک ہزار ارب روپے ہو چکا تھا۔ ملک کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن بری طرح بگڑ چکا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر سات ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ڈالر اور روپے کی قدر کو جن مصنوعی سہاروں سے قابو میں رکھا گیا تھا وہ مزید مشکلات کا باعث بن رہے تھے۔ ان حالات میں سب سے پہلا کام ٹیکس محصولات میں اضافے کا انتظام کرنا تھا۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ دوست ممالک سے رجوع کیا۔ سعودی عرب امارات اور چین کی مالی مدد اور ملائشیا و ترکی کے پرخلوص مشوروں کے باعث صورت حال بدلنے لگی۔ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا اور پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے سے 6ارب ڈالر کے نئے بیل آئ وٹ پیکیج کے لئے چار ماہ تک مذاکرات کئے۔ حکومت نے مالیاتی اور تجارتی اصلاحات کی پالیسی تیار کرتے وقت آئی ایم ایف کی متعدد شرائط کو تسلیم کیا اور پالیسی کا حصہ بنایا۔ ان تمام اصلاحات نے معاشی بحران کی سنگینی کو کسی حد تک کم کیا ہے مگر معاملے کے حل کی خاطر پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی معیشت کو قرض اور امداد کے ستونوں پر لٹکائے رکھنے کی بجائے پیداواری عمل اور برآمدات کو فروغ دے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ برآمدات ٹیکسٹائل کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں۔ 2018ئ میں پاکستان کی کل برآمدات 23;46;6ارب ڈالر تھیں جبکہ اس کے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کو چھوڑیں خطے کا نیا معاشی کھلاڑی بنگلہ دیش اپنی برآمدات کو 50ارب ڈالر سے زاید پر لے جا چکا ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل‘ پارچات‘ کپاس‘ غذائی اجناس‘ چمڑہ ‘ چینی‘ معدنی تیل‘ مشروبات‘ سرکہ‘ سپرٹ‘ نمک‘ گندھک‘ قیمتی پتھر اور سیمنٹ برآمد کرتا ہے۔ کھیلوں کا سامان اور طبی آلات کئی ممالک کو بھیجے جاتے ہیں۔ خلیج اور یورپ کے بہت سے ممالک میں پاکستانی محنت کش کام کرتے ہیں اور 20ارب ڈالر کی ترسیلات زر وطن بھیجتے ہیں۔ جدید معاشی نظام میں برآمدات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے‘ برآمدات کے ذریعے افراد اور ادارے نئی منڈیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس سے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ عہد حاضر میں ریاستوں کے باہمی تعلقات میں تجارتی ضروریات کو اولیت حاصل ہو چکی ہے۔ پاکستان دیکھ چکا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بہت سے دوست ممالک بھارت کے مقابلے میں اس لئے کھل کر حمایت نہ کر سکے کہ انہیں بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات عزیز تھے‘ وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ عرصے میں ٹیکسٹائل کے شعبے کے لئے متعدد مراعات کا اعلان کیا ہے۔ تیل اور گیس کے نرخوں اور فراہمی کے ضمن میں صنعتوں کو رعایت دی جا رہی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں نئے ٹیکس فری انڈسٹریل زون قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ کاروباری افراد کو نیب کی جانب سے غیر ضروری طور پر دبائ و سے بچانے کا لائ حہ عمل نافذ ہو چکا ہے۔ ایف بی آر کے نظام کو کاروبار دوست بنانے پر کام جاری ہے تاہم اس سلسلے میں حکومت کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ برآمدات میں اضافہ کے لئے حکومت بیرون ملک تعینات کمرشل اتاشیوں کو متحرک کرے۔ ہر ملک کی ان ضروریات کی فہرست بنائی جائے جو پاکستان پوری کر سکتا ہے۔ پاکستانی مال کو عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل بنانے کے لئے ڈیوٹی ڈرابیک سکی میں متعارف کرائی جائیں۔ صنعتی اور پیداواری شعبے کے لئے قرضوں کا حصول آسان اور سادہ بنایا جائے۔ سرکاری دستاویزات کو سادہ اور آسان بنایا جائے۔ جو ادارے اور افسران معاشی بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں ان کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اچھے فیصلوں کے نتائ ج حسب توقع برآمد نہیں ہوتے۔ ان کے مابین ہر سطح پر مشاورت اور تعاون کا ماحول پیدا کئے بغیر معاشی بہتری ممکن نہیں۔ حکومت قلیل المدتی اور طویل المدتی معاشی و تجارتی پالیسیاں بناتے وقت قومی اہداف کو پہلو بہ پہلو رکھے۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں مسلسل نگرانی اور ہدف پر نگاہ رکھنے سے قوموں نے کامیابی پائی۔ بنگلہ دیش میں ایک ایکڑ کپاس کاشت نہیں ہوتی مگر آج وہ جنوبی ایشیا میں گارمنٹس اور ٹیکسٹائل مصنوعات کا بڑا برآمد کنندہ بن چکا ہے۔ پاکستان نے بہت سے ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے کر رکھے ہیں۔ پاکستان ڈبلیو ٹی او کا رکن ہے۔ سارک فری ٹریڈ ایریا کے معاہدے پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں ‘ پاکستان کے پاس سی پیک معاہدے کی شکل میں ایک زبردست تجارتی صلاحیت آ چکی ہے۔ پاکستان کو صرف چند اصلاحات اور حکومت کی مسلسل دلچسپی کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم نے خرابی کی نشاندہی کر دی ہے اب اس خرابی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے موثر کوششوں کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر درست سمت میں پیش قدمی جاری رکھ پاتی ہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان قرضوں کی جگہ برآمدات پر بھروسہ کر سکے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here