کامل احمر
امریکہ فلو کے عذاب میں ہے، دنیا بھر میں یہ عذاب پھیلا ہوا ہے وجہ اس کی کچھ بھی ہو لیکن ایک بات اٹل ہے کہ ہر چیز بدلے گی، ہم اسمارٹ فون کی ایجاد سے تنگ لوگوں کے روئیے کا رونا رو رہے تھے کہ اب یہ اسمارٹ فون گھر میں بند لوگوں کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں کہ اس کے ذریعے اپنے پیاروں کو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے وہ لوگ جن کے پاس اپنوں سے ملنے کا وقت نہیں تھا، ان پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا تھا بلکہ وہ خوش ہیں، گھر میں بیٹھ کر ہی کھانے پینے کی اشیاءکا آرڈر دو اور دروازے پر جا کر اٹھا لو۔ یہ وائرس چلا جائےگا لیکن ہر شعبہ¿ زندگی میں انقلاب برپا کر کے جائےگا، اسکول کالج جانے کی ضرورت نہ ہوگی، حکومت کو فائدہ ہوگا، آفس کی ضرورت بھی نہ ہوگی کہ کمپیوٹر گھر گھر میں موجود اور آفس کا کام گھر سے ہو رہا تھا، اب یہ عام ہو جائےگا، کارخانوں میں پیکنگ بھی روبوٹ سے ہوگی، کاروں کے بنانے میں اس کا استعمال ہو رہا ہے وہ بڑھ جائےگا، پھر اتنے انسانوں کی ضرورت بھی نہ ہوگی اس کی شروعات ہو چکی ہے کاریں خود کار ہونگی، تو UBER کو اپنے ڈرائیوروں کو کچھ دینے کی ضرورت نہ ہوگی جس کا تجربہ ہو چکا ہے ممکن ہے روبوٹ ہی پیزا ڈلیوری کیلئے استعمال ہونا شروع ہو جائیں۔ کرونا وائرس جس کے نتیجے میں ایک سو پینسٹھ ہزار آٹھ سو سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں جس میں امریکہ، اسپین، اٹلی، برطانیہ، فرانس، پیش پیش ہیں اور ابھی اس کے ختم ہونے کی کوئی تاریخ نہیں۔ اب ہم اس کا موازنہ 1918ءمیں آئے اسپینش فلو سے کریں جو جنوری 1918ءمیں شروع ہوا تھا اور دسمبر 1920ءکے آخر میں ختم ہوا تو وہ ایک قیامت صغریٰ کے مانند تھا جس میں دنیا کی ایک تہائی آبادی ، پانچ سو ملین لوگ اس کی زد میں آئے تھے اور 50 ملین یعنی پانچ کروڑ انسانوں کی جانیں ضائع ہو گئی تھیں اور مرنے والوں میں 15 سے 34 سال کے نوجوان تھے جبکہ موجودہ وائرس کے شکار زیادہ تر 70 سال کے لگ بھگ لوگ ہیں، اٹلی، فرانس اور برطانیہ میں جہاں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد جوانوں سے زیادہ ہے اور مستقبل میں ہر ملک کو چلانے کیلئے ان کی ہی ضرورت ہے۔ اسپینش فلو پوری دنیا میں پھیل گیا تھا کہاں سے شروع ہوا، اس کا یقینی طور پر پتہ نہیں لیکن جرمنی، امریکہ، فرانس، برطانیہ میں پھیلاﺅ زیادہ تھا۔ یہ دیکھ کر کچھ اطمینان ہوتاہے کہ دنیا کی آبادی آج کی تاریخ میں سات سو اسی کروڑ ہے ۔1918ءمیں آبادی صرف ایک سو اسی کروڑ تھی اگر ان ہندسوں کو دیکھیں تو ہماری اوپر والی بات پر سوچنا پڑتا ہے کہ اتنے لوگوں کیلئے ضروری اشیاءکی فراہمی کتنی مشکل ہے لیکن سائنس کی مدد سے کھانے پینے کی اشیاءکی پیداوار بھی بہت کافی ہے کہ جہاں سال میں ایک فصل ہوتی تھی اب دو سے تین فصلیں ہونے لگی ہیں، سبزیاں سورج کے بغیر پیدا کی جا رہی ہیں لیکن بڑے طاقتور ملکوں کی سیاست میں غریب ملک غریب تر ہو رہے ہیں افریقہ اس کی مثال ہے ساتھ ہی صحت میں بہتری بھی آئی ہے پچھلے 150 سالوں میں، کئی ملکوں میں اوسط عمر 80 سال کے قریب ہے اور بڑھ رہی ہے ،یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ لوگ 80 سال تک ملازمتوں پر جمے رہتے ہیں اور نوجوانوں کیلئے جگہ خالی نہیں کرتے اچھی صحت ہونے کے ناطے وہ 80سال میں بھی چاک و چوبند رہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں زیادہ عمر کے لوگوں کو گھر بٹھا کر کھلانا بھی خسارے کا سودہ ہے اس ضمن میںبہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے ہم خود 80 سال کے ہونے واے ہیں اور سوچتے ہیں ہم معاشرے کو کیا دے رہے ہی، یقیناً ایسے ہی سوال یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں کے ذہنوں میں ہونگے کہ علاج معالجے اور مالی امداد کی مد میں یہ خسارے کا سودا ہے اور کرونا وائرس نے حملہ آور ہو کر ان کیلئے آسانی پیدا کر دی ہے اور اس کی آڑ میں نظام کو بدلا جائے انڈسٹریز میں پیداوار کی شکل میں تبدیلی آئے۔ ساتھ ہی کافی تعداد میں لوگ بے روزگاری کا شکار بھی ہونگے اور حالات بہتر ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں ،کہا جا رہا ہے کہ وائرس کی دوسری لہر اگست میں آئے گی مطلب یہ کہ وائرس اگست کے بعد تک رہے گا پورا سال ختم ہو جائےگا اور زندگی کو معمول تک آنے میں وقت لگے گا۔
نیویارک میں ہم نے کئی جگہوں پر شہریوں کی غیر ذمہ داری کو بھی دیکھا ،دیسی دوکانوں میں دوکان پر کام کرنے والوں میں بہت سے لوگوں کے منہ پر ماسک بھی نہیں دیکھا اپنے پڑوس میں ہی ایک آٹو شاپ پر جہاں صرفBMW آتی ہیں اور مالک سے ورکر اور کار والے سب کے سب افریقی امریکن ہیں کسی کے منہ پر ماسک نہیں دیکھا وہ شام کے وقت ایک دوسرے کے قریب کھڑے حسب معمول حرکات میں پہلے کی طرح مشغول تھے یہ ویلی اسٹریم کا علاقہ کوئنز یا بروکلین سے کم نہیں۔ ایسے میں لوگوں کی حفاظت کی ذمہ دار ریاست کیسے لے سکتی ہے نتیجہ میں ناسو اور سفوک کاﺅنٹی بھی کرونا کے بڑھاﺅ میں شامل ہیں۔
اور ایسے وقت میں اگر آپ کو کسی گھر کی مرمت، کچن، باتھ روم، نکاسی یا بجلی کا کام پڑجائے تو ہمارے پاکستانی بالخصوص اور امریکن بھی منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں اور نخرے الگ ہیں۔ ایسے پاکستانیوں کیلئے اور ہندوستانیوں کیلئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کرونا نے ان سب کی حرکتوں (بے ایمانیوں) کا جواب دے دیا ہے ہماری طرح دوسرے لوگ بھیان اناڑی کام کرنے والوں کا شکار ہیں اور مذہبی جنون میں اسلام کو مشکل بنانے والے اور فرقوں میں بٹے لوگوں کیلئے بھی کرونا سوچنے کا موقعہ دیتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ان پاکستانی اور امریکہ کے ان سیاستدانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ خود کو عوام اور ملک کی خدمت کیلئے وقف کر دیں اور دلالوں سے دور رہیں۔ صدر اور ان کی فیملی چونکہ بہت طاقتور سمجھے جاتے ہیں خود کو ان سے حساب لینے والا خدا ہے کہ وہ مسلمانوں، فلسطین، کشمیر، شام، یمن اور ایران کو خود مختاری دلوائیں۔
٭٭٭