جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
ہم یہ کالم لکھنے بیٹھے ہیں تو ہمیں ایک بے حد مستعمل فقرہ یاد آرہا ہے، کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں، عام حالات میں یہ جملہ محض ایک رسمی مکالمہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر ایک حقیقت پنہاں ہوتی ہے، باہمی تعاون اور مدد کی۔ عمومی طور پر یہ مکالمہ انفرادی طور پر استعمال ہوتا ہے جب ہم کسی کام یا مقصد کیلئے رابطہ میں آتے ہیں لیکن جب کسی علاقہ، شہر، ملک، یا خطہ کی غیر معمولی صورتحال ہو تو انفرادی جملہ صورتحال سے نپٹنے کیلئے مجموعی شکل اختیار کر لیتا ہے اور افراد، اقوام و معاشرے میں عملی صورت میں عمل پذیر ہوتا ہے۔ اس وقت تمام خطہ ارضی Covid-19 کی جس وباءسے دوچار ہے اس میں ہیلپ کا یہ استعارہ عالمی بن جاتا ہے۔ دنیا بھر کے دو سو سے زائد ممالک کورونا سے شدید متاثر ہیں۔ اس ناگہانی وباءسے نجات اور متاثرین کی دمد کیلئے ہر ملک، ہر شعبہ اور طبقہ اپنے اپنے حالات کے مطابق جدوجہد کر رہا ہے، کرونا کےخلاف اس عالمی جنگ میں تمام ممالک، عالمی ادارے اور خصوصاً حکومتی، انتظامی و فلاحی طبقات اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس جدوجہد میں متاثرین و صحت کے حوالے سے نادار لوگوں کے تحفظ کیلئے صحت عامہ سے متعلق شعبے کے افراد (ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف وغیرہ) ہر اول دستے کا کام اپنی جانوں اور صحت کی پرواہ کئے بغیر جہاد کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اپنے فریضے کی انجام دہی میں سینکڑوں ڈاکٹرز اور طبی عملے کے لوگ اپنی زندگی ہار چکے ہیں۔ یہ جذبہ¿ انسانی یقیناً لائق تحسین و شکر ہے کہ ان انسانوں نے ایک مثبت فرض کی ادائیگی کو اپنی جانوں پر بھی مقدم جانا ہے۔ انسانیت اور بنی نوع انسان کی بقاءکی اس جدوجہد میں یقیناً دنیا بھر کی حکومتیں، سیاسی، سماجی، فلاحی قوتیں، میڈیا، عالمی ادارے سب ہی مصروف عمل ہیں اور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اس نادیدہ موذی دشمن سے نجات حاصل کریں۔ اس وباءسے نجات کیلئے ویکسین کی تیاری پر اقدامات کےساتھ متاثرین کی تشخیص و علاج کیلئے سہولتوں کی دستیابی پر بھی متعدد تجربات کئے جا رہے ہیں،ا س موذی وباءکے بے دریغ پھیلاﺅ نے جہاں ہزاروں افراد کو موت کی نیند سُلا دیا ہے لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوئے وہیں دنیا بھر کو شدید معاشی و سماجی بدحالی سے بھی دوچار کر دیا ہے ہم اپنے پچھلے کالموں میں اس حوالے سے تفصیلی اظہار کر چکے ہیں۔ کاروبار زندگی تھم جانے کے باعث صرف امریکہ میں ہی 22 ملین افراد روزگار سے محروم ہیں۔ معیشت کی بحالی کیلئے امریکی صدر ٹرمپ نے کاروباری سرگرمیوں کے احیاءکا ارادہ و اعلان کر دیا ہے لیکن نیویارک سمیت بیشتر ریاستوں کے گورنرز اس وباءکی تیزی اور نتیجتاً اموات و متاثرین کی تعداد کے پیش نظر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا مو¿قف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کا پیرائیہ بگڑ جائےگا جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ ملک کی دونوں سیاسی پارٹیاں اس موضوع پر متحارب نظر آرہی ہیں۔ ٹرمپ الزام لگا رہے یہں کہ معیشت کے مزید زوال سے آئندہ انتخابات میں ان کی جیت ناممکن ہو جائےگی جبکہ ڈیمو کریٹس ٹرمپ کے اس اقدام کو مزید انسانوں کی جانوں کے ضیاع کا محرک قرار دے رہے ہیں۔ گویا کرونا کا معاملہ سیاست کے کھیل کا حصہ بن گیا ہے بات صرف اس حد تک ہی نہیں ہے۔ Covid-19 کے عذاب کو گلوبل سیاست میں بھی استعمال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ کا اس وائرس کو چائنہ وائرس کہنا، چین کو اس کے پھیلاﺅ کا ذمہ دار قرار دینا اور اب WHO پر غلط معلومات کی فراہمی کا جواز بنا کر امریکی امداد روکنے کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتا ہے جواباً چین کا اس کیخلاف مو¿قف مزید برآں فرانس و دیگر یورپی ممالک کاچین پر متاثرین و ہلاکت شدگان کی تعداد چھپانے کا الزام اس امر کا مظہر ہے کہ سبقت کی گلوبل جنگ کی بنیاد کرونا کو بنایا جا رہا ہے۔
کرونا کی ہولناکیوں اور تباہی کے باوجود پاکستان میں بھی سیاسی صورتحال کچھ اسی طرح کی ہے، ہم اپنے پچھلے کالم میں اس حوالے سے بہت کچھ نشاندہی کر چکے ہیں، حکومتی سطح پر وفاق اور صوبہ سندھ میں تنازعی کیفیت، سیاسی مخالفین اور حکومتی حلقوں کے درمیان الزام تراشیاں اور دعوے، میڈیا کی اپنی ریٹنگ اور بالادستی، ملکی معیشت اور روزگار کی بدحالی پر مخالفوں اور ان کے حمایتی اینکروں و مبصرین کی انگشت نمائی کا سلسلہ تو جاری ہے یہاں تک کہ عمران خان کی حکومت جانے اور قومی حکومت بنانے کی باتیں پھیلا کر بے اعتماد کی فضاءبنانے کی خبریں پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاہم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ کوششوں سے نہ صرف کرونا کے پھیلاﺅ کے تدارک کے اقدامات دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر ہوئے ہیں بلکہ ملک کے نادار و محروم طبقات کے معاشی تعاون کیلئے اقدامات بھی قابل تحسین ہیں۔ ادھر عمران خان کی اپیل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تائید کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی ایک ارب چالیس کروڑ کی گرانٹ اور 2023ءتک ادائیگی کا التواءپاکستانی معیشت کیلئے ایک اہم سہارا ہے۔
وزیراعظم کی ان مخلصانہ و مثبت کوششوں کے باوجود سیاسی و منافقانہ مفاد پرستی کا کھیل جاری ہے اور مختلف وجوہ مثلاً شوگر، قرضوں اور آئی پی پی کی رپورٹس کو بنیاد بنا کر حکومت اب گئی، تب گئی، کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے معاشی سرگرمیوں کی جزوی بحالی کے اقدامات کو کرونا کے بڑھنے کا جواز بنایا جا رہا ہے۔ ادھر رمضان کی آمد کے حوالے سے مفتی منیب و تقی عثمانی سمیت مولویوں نے ایک طوفان اُٹھایا ہوا ہے اور تراویح و عبادات کے دینی اجتماعات پر زور دیا جا رہا ہے، بہر حال صدر مملکت سے مذاکرات سے بعض مشروط نکات پر اس معاملہ کا حل نکالا گیا۔ حالات کو مزید گھمبیر بنا کر طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں حالانکہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس وقت ساری قوم کرونا کےخلاف متحد ہو کر عمل کرے اور ان تدابیر و احتیاط پر عمل کرے جو اس وباءسے بچا سکے۔ اس وقت ہر محروم اور حاجت مندوں کی مدد کیلئے حکومت اور فلاحی و کاروباری متمول طبقات کے کاموں میں اشتراک کیا جائے۔ مذہبی منافرت و سیاسی چپقلشیں چھوڑ کر مکمل اتحاد سے اقدامات کئے جائیں۔
یہاں الی نائے میں مختلف اداروں، ریسٹورنٹس، کاروباری و فلاحی اداروں نے وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاست کے سب سے بڑے بازار دیوان ایونیو پر واقع کاروباری، تجارتی ادارے، ریسٹورنٹس، فلاحی ادارے اور ریاست کے متمول افراد سے بیشتر اس فریضہ میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے جبکہ ان کا ریکارڈ یہ ہے کہ یہ حکومت سے ٹیکس و گرانٹ کی مد میں بہت کچھ حاصل کرتے ہیں، اپنے کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کماتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت میں یہ خواب خرگوش میں محو ہیں۔ کچھ یہی حال یہاں کے دینی قائدین کا بھی ہے کہ اس آزمائش کے دور میں وہ انسانوں، انسانیت کی بقاءکے بجائے اپنے مسلکوں اور مو¿قف کو مقدم رکھے ہوئے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ انسانیت قوم اور جس ملک میں وہ رہ رہے ہیں اس کیلے عملی خدمت کا فریضہ انجام دیں، یہی وقت ہے کہ ہم How Can We Help پر عمل کریں۔
٭٭٭