کِس میں کتنا ہے دم؟

0
417
جاوید رانا

قارئین کرام! رمضان المبارک کی افضل و متبرک ساعتیں مبارک ہوں، صیام و قیام کی عبادات، نفس کے تزکیہ و تلاوت قرآن کی بہار و سعادت اللہ رب العزت قبول فرمائے۔ آمین۔ ارشاد ربانی و حدیث مبارک کے مطابق اس ماہ مبارک میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ مقید شیاطین کم از کم وطن عزیز میں یکجا ہو کر اس ماہ میں اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس ماہ کے فیوض و برکات کو سیاسی کیچڑ سے دھندلایا جا رہا ہے۔ سیاست کا گند یوں تو طویل عرصے سے جاری ہے تاہم گزشتہ چند ماہ سے اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ متحدہ اوپزیشن اور حکومت میں تنائو اور مخالفت کی خلیج کی وسعت بڑھتے بڑھتے نوبت وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد تک جا پہنچی تھی۔ دعوئوں، جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کا طومار اور شور و غوغا اسقدر تھا کہ عام آدمی بھی اس ہنگام پر حکومت جانے کی پیش بینی تصور کر رہا تھا۔ اپوزیشن نے اپنے تمام حربے آزما کر تحریک کے تمام لوازمات پورے کر لئے تھے اور امکان یہی نظر آرہا تھا کہ عمران خان کیخلاف تحریک کامیاب ہو جائیگی لیکن کپتان ان تمام حالات کے باوجود پُر اعتماد نظر آتا تھا اور اس مؤقف پر ڈٹا ہوا تھا کہ وہ آخری گیند تک لڑے گا اور جیت اُس کی ہی ہوگی۔ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں بارہا اس امر کا اظہار کر چکے تھے کہ کپتان ان مفاداتی اور آزمائے ہوئے مہروں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ اندازہ یہی تھا کہ بالفرض تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی گئی تو عمران خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ مخالفین کو عوام کے تعاون سے ناکوں چنے چبوائے گا۔ سیاست کے اس طوفانی کھیل میں جو کچھ ہوا وہ سب قارئین کے علم میں ہے۔ کپتان کو اپنے وسیم اکرم پلس کو ہٹ وکٹ بھی کرانا پڑا اور نیا کھلاڑی گرائونڈ میں اُتارنا پڑا، یوں پنجاب میں نئی اننگز کے اہتمام کا تصور سامنے لایا گیا۔ دوسری جانب وفاق کے گرائونڈ، قومی اسمبلی میں تحریک پر اننگز کے آخری اوور یعنی ووٹنگ کا وقت آگیا۔ اس روز جو کچھ ہوا اور جس طرح اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو بولڈ کر دیا گیا وہ مخالفین کیلئے سرپرائز ہی نہیں مکمل شاک تھا۔ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں تحریک عدم اعتماد کے استرداد، کپتان کے اسمبلیوں کی تحلیل کی سفارش اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی کے ختم کئے جانے کے حکم نے نہ صرف مخالفین بلکہ ان کے سپورٹر میڈیا و ماہرین کو بھی ششدر کر کے رکھ دیا تھا، دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ بھی التواء کا شکار ہو کر محاذ آرائی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس تمام صورتحال میں عجیب صورتحال سامنے آئی کہ حکمران اشرافیہ اور عوام خوشی کے ڈنکے بجا رہے تھے جبکہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے محروم کرنے اور نئے انتخابات کے خواہشمند مخالفین پر سوگ کا عالم طاری تھا۔ اپوزیشن اپنی اس ناکامی کو ہضم نہیں کر پا رہی ہے، ڈپٹی اسپیکر کے تحریک کے مسترد کئے جانے پر آئین سے روگردانی کی بنیاد پر اس کی درخواست سپریم کورٹ سے مسترد ہو گئی ہے تاہم عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لے کر استرداد کے اس عمل پر سماعت شروع کر دی ہے اور صدر، وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر کے اقدامات کو اپنے فیصلے سے مشروط کر دیا ہے۔ دوسری جانب صدر مملکت کی جانب سے عبوری حکومت اور نوے روز میں انتخابات کے احکامات سامنے آچکے ہیں۔ہمارا کالم آنے اور آپ کے زیر مطالعہ ہونے تک عدالت کا فیصلہ آچکا ہوگا۔عدالت عظمیٰ میں معاملہ کی زیر سماعت ہونے کے سبب ہم قانونی و آئینی پہلوئوں سے گریز کرتے ہوئے صورتحال کے سیاسی پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہیں گے۔ عمران خان کی حکومت کے آغاز سے ہی زرداری، شریف و مولانا اس حکومت و وزیراعظم کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے اور ساڑھے تین سال سے ان کا مشن سلیکٹڈ کو ہٹانے اور نئے انتخابات کرانا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کا اقدام بھی اسی مشن کا حصہ تھا تو اب جبکہ حکومت بھی ختم ہو گئی ہے اور نئے انتخابات کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے تو اپوزیشن کے اعتراض و احتجاج کا کیا جواز ہے؟ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے دعوے، عوام کے تبدیلی حکومت سے تنگ آئے ہونے اور اپنی مقبولیت میں اضافے کے نعرہ بازوں کو تو اب نئے انتخابات کے انعقاد اور اپنی مقبولیت ثابت کرنے کا موقع ملا ہے تو پریشانی کس لئے ہے۔ اپنے دعوئوں کو حقیقت کا درجہ دینے کا اس سے بہتر کیا موقع ہو سکتا ہے۔
ہمیں نہ جانے کیوں اس وقت ایک گانے کے بول یاد آرہے ہیں جو عموماً شادی بیاہ کے خصوصاً مہندی کے موقع پر دولہا دلہن والے گاتے ہیں، ”آئو دیکھیں ذرا، کس میں کتنا ہے دم جم کے رکھنا قدم میرے ساتھیا”۔ حقیقت یہی ہے کہ کپتان اور اپوزیشن کے درمیان کچھ اسی قسم کا مقابلہ نظر آرہا ہے۔ خیر یہ تو ایک حوالہ ہے، سچ یہ ہے کہ اپوزیشن کے تمامتر حربوں اورجیو، 24 اور حامد میر و نجم سیٹھی جیسے عمران دشمن چینلز و اینکرز کے عمران مخالف زہریلے پروپگنڈے کے باوجود کپتان نے سیاست کے کھیل کی بازی اس خوبصورتی سے کھیلی کہ اپوزیشن آخر وقت تک اسی خوش فہمی میں رہی کہ فتح ان کامقدر بن چکی ہے اور بالآخر اس کھیل میں مات کھاگئی۔ اپنے مفادات کے تحفظ اور متوقع بُرے انجام سے بچنے کی کوشش کرنیوالے ان آزمائے ہوئے سیاسی بقراطوں کو اپنا مستقبل مخدوش یوں بھی نظر آرہا ہے کہ کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کھلاڑیوں کی بھرپور کامیابی اور کپتان کے عوامی رابطوں میں عوام کا والہانہ انداز پذیرائی مخالفین کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن رہا ہے۔ عام انتخابات میں عمران مخالفت میں مجتمع یہ اکٹھ اپنی اپنی جماعت کیلئے برسر پیکار ہوگا، جبکہ عمران خان کے ساتھی، حمایتی اور ووٹرز موجودہ حالات اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث مضبوط لڑی میں پروئے ہونگے، مزید یہ کہ عمران خان کے اسلاموفوبیا و وحدت امہ جیسے اقدامات، آزاد خارجہ پالیسی اور عوام کی بھرپور حمایت کامیابی کیلئے اہم وجہ بن سکتے ہیں۔ کپتان کو بھی اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ وہ آنے والے انتخابات میں اپنے مخلص و وفادار و معتمد ساتھیوں کو الیکٹیبلز و برساتی مینڈکوں پر ترجیح دیں اور بھرپور کامیابی حاصل کریں تاکہ حلیفوں اور موقعہ پرستوں کی ضرورت نہ پڑے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ پنجاب کا محاذ سخت ہو سکتا ہے البتہ بہتر منصوبہ بندی اور صحیح امیدواروں کا انتخاب جیت کی کلید ہو سکتا ہے کیونکہ وفاق میں اقتدار پنجاب میں اکثریت سے ہی مشروط ہے۔ اپوزیشن سے تو ہماری عرض یہی ہے کہ یہ وقت ہے ثابت کرنے کیلئے، کس میں کتنا ہے دم، انتخابات ہی صحیح اور مثبت طریقہ ہے، احتجاج، دھرنے اور دعوے میڈیا تک ہی محدود رہتے ہیں، کامیابی کا راستہ عوام کی حمایت سے گزرتا ہے اور جو عوام کی حمایت و ووٹ حاصل کرے گا وہی اگلے انتخابات میں سکندر ہوگا۔ہماری تجاویز اور تجزیہ تو اپنی جگہ، اس وقت پنجاب سمیت جو محض آرائی کی کیفیت ہے اور معاملے میں جس طرح اسٹیبلشمنٹ کو ملوث کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔وہ مثبت اشاریہ نہیں اور تفتیش ہو رہی ہے کہ کئی جمہوریت کی بساط ہی نہ الٹ جائے۔فریقین کو بہت تحمل اور مثبت رویوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ورنہ بوٹوں کی آواز بھی آسکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here