سوشل میڈیا کا غلط اور خطرناک استعمال!!!

0
158
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

انٹرنیٹ کی ایجاد جنوری 1983ءمیں ہوا تھا لیکن 70ءکی دہائی سے اس ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا تھا اور پھر 1990ءمیں کمپیوٹر سائنسدان ٹم برنر لی نے ورلڈ وائیڈ ویب (www) کو متعارف کرایا لیکن اب یہ پرانی باتیں لگتی ہیں پہلے تو مائیکرو سافٹ کی اجارہ داری تھی جس کے بانی بل گیٹس تھے مائیکرو سوفٹ بنیادی طورپر کمپیوٹر کے چلانے کا نظام بناتے تھے اور یہ کمپنی بل گیٹس اور ان کے بچپن کے دوست نے اپریل 1975 میں بنائی تھی اور بنیادی طور پر ان کا کام سوفٹ ویئر اور کمپیوٹر کی زبانیں کمپیوٹر لینگوئج بنانا تھا، کمپیوٹر سوفٹ ویئر کے متعلق جاننے والے Ms Dos جس کے فوراً بعد ونڈوز اور پھر IPO یہ ساری جدتیں مائیکرو سوفٹ نے 1980ءکی دہائی میں کیں۔ مائیکرو سوفٹ نے بے تحاشہ دولت کمائی لیکن بل گیٹس نے یہ دولت صرف خود نہیں بٹوری بلکہ اپنے ساتھی کارکنوں کو بھی نوازا جس کی و جہ سے آج اس کمپنی میں بارہ ہزار ملازمین ایسے ہیں جو کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ بل گیٹس 2000ءمیں بطور سی ای او (سربراہ) کے مائیکرو سوفٹ سے علیحدہ ہو گئے لیکن بطور چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر کام جاری رکھا۔ 2000ءمیں بل گیٹس خیراتی فاﺅنڈیشن کی پانچ ارب ڈالروں سے ابتداءکی۔ لیکن جستجو خُوب سے خُوب تر کی رواں دواں رہی اور پھر ستمبر 1998ءمیں ویب ٹیکنالوجی میں ایک انقلاب آیا جس کا نام تھا گوگل، اس گوگل نظام کے آتے ہی سوشل میڈیا متحرک ہوا تو اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی فیس بک 1994ءٹوئٹر 1996ءاور واٹس اپ 1998ءنے تہلکہ مچا دیا۔ یہ وہ دور تھا کہ لوگ مصروف ہو گئے تھے اور برملا ملاقاتوں کیلئے وقت نہیں تھا ۔اب یہ رابطے سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہو گئے اور لوگوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا، کئی برسوں تک ان ذرائع کا مثبت استعمال ہوتا رہا لیکن حالیہ برسوں میں الزام تراشیاں بے بنیاد تھیں اور الزامات کے ذریعے لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے والے تشدد پسندوں کے ہاتھوں یہی میڈیا ایک عذاب بنتا جا رہا ہے تیلی سے گھر کے چولہے میں آگ بھی چلائی جاتی ہے لیکن پھر اسی تیلی سے کسی اور کے گھر میں آگ بھی لگائی جا سکتی ہے۔ عالمی طور پر ایسے جرائم جو کہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کے ذریعے کئے گئے Cyber Crime کے قوانین تشکیل دیئے گئے اور خوش قسمتی سے یہ قوانین پاکستان میں بھی رائج کئے گئے ہی لیکن تعلیم کی کمی اور قانون کے نئے پن کی وجہ سے لوگ ابھی تک ان قوانین کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔ اس کے علاوہ قوانین نافذ کرنے والے ادارے بھی ابھی ان قوانین کے نفاذ کیلئے اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کر پائے لیکن ایف آئی اے بھی اپنے امریکی ہم عصر ادارے ایف بی آئی اے سے کافی رہنمائی اور تربیت دلوا کر اس کام کو آگے بڑھایا ہے۔ سوشل میڈیا کے منفی استعمال میں ہم سب قصور وار ہیں کیونکہ جھوٹی خبر یا پوسٹ لگانے والے کا تو مقصد ایک غلط بات کو پھیلنا ہے لیکن ہم سب ان کے آلہ¿ کار بن کر اس شخص کے جُرم میں شراکت کار بن جاتے ہیں ،اس لئے ضروری ہے کہ ہم پوسٹ اور ہر معلومات کو بغیر تحقیق کیے آگے مت پوسٹ کیا جائے اگر آپ کے پاس وقت ہے تو اس پوسٹ کی سچائی کی انٹرنیٹ کے ذریعے ہی تحقیق کریں یا ایسے معلوماتی ذرائع استعمال کریں جنہیں آپ مستند سمجھتیں ہوں چاہے آپ کا دوست ہی کیوں نہ ہو؟ اور اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو اسے ری پوسٹ یعنی آگے پوسٹ نہ کریں اور اگر آپ جان جائیں کہ یہ غلط ہے تو جس نے پوسٹ کیا ہے اسے آگاہ کریں کہ یہ غلط ہے اس طرح افواہوں کو پھیلانے سے روکنے میں آپ ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کل لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں، فارغ ہیں اور آج کل یہ افواہ سازی عروج پر ہے۔ سازشی تھیوری بھی عروج پر ہیں ،ہم سب ان فروعات کا شکار اس لئے بنتے ہیں کہ مثال کے طور پر ہم امیر ترین لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور کچھ ہم میں سے حاسد ہیں، اب ایسے میں کسی نے اگر بل گیٹس کیخلاف خبر لگائی کہ بل گیٹس ایک سازش کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ایک ٹیکہ ویکسین تیار کروا رہا ہے جس کے ذریعے ایک ایسی چپ جس طرح کمپیوٹر یا سمارٹ فون میں ہوتی ہے کہ وہ انسان کی نقل و حرکت اور بیماریوں کے متعلق معلومات فراہم کرتی رہے گی۔ یہ بات مکمل طور پر بے بنیاد اور لغو ہے بل گیٹس 1996ءسے ترقی پذیر ممالک میں فلاحی و خیراتی کام کر رہا ہے پچھلے سال بل گیٹس نے چار ارب پچھتر کروڑ ڈالر رفاعی کاموں پر خرچ کئے ہیں 1996ءسے اب تک چالیس ابر ڈالر کے خیراتی پراجیکٹ مکمل کر چکا ہے وہ دنیا کا امیر ترین آدمی ہے جس کا مذہب اور نظریہ¿ انسانیت اور انسانی ذات کی خدمت ہے۔ وہ ایک سادہ مزاج انسان ہے کوئی زیادہ اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا، ہر سال اپنے اثاثوں کا دو فیصد وہ رفاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے جس چِپ کی بات بل گیٹس سے منسوب کی جا رہی ہے وہ ممکنہ طور پر جی بی، سی آئی اے، ایم آئی 5 اور موساد جیسی خفیہ ایجنسیوں کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے ۔اسے انسانی ٹریکر کہا جاتا ہے جس طرح BPS گاڑی کو ٹریک کرتا ہے۔
کرونا وائرس کے آغاز کے متعلق بھی مختلف بے منطقی سازشی تھیوریاں ہیں چین نے بنایا پھر امریکہ اور یورپ بھیجا ایک امریکی شخص یہ بھی کہہ رہا ہے کہ انٹرنیٹ پر ایک امریکی خاتون جو کہ امریکی فوج میں سارجنٹ ہے ،ان کے ذریعے ووہان چین میں ہونےوالے سائیکل ریس میں یہ بیماری ووہان میں پھیلائی گئی ہے ،وہ خاتون اور ان کے خاوند کو دھمکیاں مل رہی ہیں یہ بھی قطعی طور پر جھوٹی خبر ہے براہ مہربانی افواہوں کو مت عام کریں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here