رعنا کوثر
ظلم تصویر پر آواز اٹھانا انسانوں کی عظمت کی دلیل ہے،حال ہی میں ایک انسان پر ظلم کے خلاف امریکہ میں بہت احتجاج کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔جو ظلم سامنے آجائے اور ظلم کے خلاف بہت سارے لوگ بول پڑیں تو کئی لوگوں کو ہمت آجاتی ہے۔اگر احتجاجی جلوس نکلے تو بے شمار لوگ باہر نکل کر شامل ہوجاتے ہیںاور فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم بھی ظلم کے خلاف آواز لگانے گئے تھے، نظمیں کہی جاتی ہیں، گانے گائے جاتے ہیں۔سب ہی اس کار خیر میں شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیںمگر وہ ظلم جو ہم ایک دوسرے پر کرتے ہیں اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا،نہ ہم اس ظلم کو محسوس کرتے ہیں اور اگر محسوس ہو بھی جائے تو ہم کسی کو اس کے بارے میں احساس بھی نہیں دلاتے کیونکہ ہر دفعہ احساس دلانے والے بہادر لوگ سامنے نہیں آتے۔
عام انسان عام پبلک میں جو نہ تو پولیس میں شامل ہے اور نہ ہی کسی بڑے محکمے میں کام کرتا ہے بڑے ہی عام طریقے سے لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے۔دوسرے بھی اس ظلم میں شامل ہوتے رہتے ہیںاور کوئی احتجاج کرنے والا نہیں ہوتا اگر کوئی احتجاج کرے بھی تو اس پر بھی ظلم شروع ہوجاتا ہے اور وہ بے چارہ خاموش ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے وہ کون سے مظالم ہیں جن کے بارے میں ہم حساس نہیں ہوتے۔لوگوں کے گھروں میں ہونے والے واقعات کے بارے میں ہم کبھی حساس نہیں ہوتے اور ہمارے تبصرے ہمارے ان کے ساتھ رویے کچھ اس طرح سے ہوتے ہیںکہ وہ ایک ظلم کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔یہ پاکستان کی بات ہے ایک لڑکا اور لڑکی کسی الگ مقام پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔لڑکے کی کچھ لڑکوں سے دشمنی تھی ،وہ جماعت اسلامی کا لڑکا تھا۔ باقی لڑکے کسی اور پارٹی سے تھے۔ان دونوں کی چپکے سے تصاویر لے کر اخبار میں چھاپ دی گئیں۔ایسے سیکنڈل سے لڑکی کی زندگی اس ظلم کا کس طرح شکار ہوئی ہوگی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ہمارے محلے میں بہت چوریاں شروع ہوگئی تھیںجو گھروں سے برتن غائب ہو پاتے پیسے چلے جاتے۔رات کو چور آتا اور لے جاتا کچھ دنوں بعد ایک لڑکا پکڑا گیا۔کسی کام والی کا بیٹا تھا جو یہ حرکت کرتا تھا محلے والوں نے پکڑ کر اتنا پیٹا کے وہ مرنے کے قریب ہوگیا۔پھر پولیس کے حوالے کرکے اطمینان سے سو گئے۔مانا کے یہ مجرم تھے مگر باقی لوگ ظالم تھے۔اگر کسی لڑکی کی طلاق ہوجائے تو زمانہ اس گھر کی تمام بیٹیوں کو ایسی نظر سے دیکھتا ہے کہ وہ شادی سے پہلے ہی اپنے آپ کو طلاق یافتہ سمجھنے لگتی ہیں۔میری نظر میں یہ بھی اس خاندان کے ساتھ ظلم ہے۔اگر کسی گھر کا کوئی بیٹا یا بیٹی بگڑ جائے تو ماں کو الزام دیا جاتا ہے کہ اس کی تربیت خراب ہے،ہر ماں کوشش کرتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو اچھا بنائے،کہیں یہ الزام ظلم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔اس عورت کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ملک میں لوگوں کی شکل وصورت کا مذاق اڑانا عام ہے۔خاص طور سے سیدھے ، سادھے لوگ اس کا نشانہ بہت بنتے ہیں ،کوئی کلو ہے تو کوئی سوکھی سڑی، کوئی بونی ہے تو کوئی ماسی جیسی لگتی ہے ۔میری نظر میں یہ بھی اس شخص پر ظلم ہے ۔ظلم کی بے انتہا مثالیں ہیں ،سمجھنا مشکل ہے کیونکہ آوازبڑے ظلم کے خلاف اٹھتی ہے، کوئی کسی کو خاموش موت مار دیتا ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا۔