پاکستان کی معاشی صورت حال پروزیر اعظم عمران خان کاغیر معمولی فیصلے کرنے پر زور۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی کے لئے غیر روایتی حل تلاش کرنے ہوں گے۔ اس موقع پر انہوں نے کورونا وبا کے دوران معاشی سرگرمیوں اور عام آدمی کے مالی ضروریات کے مابین توازن برقرار رکھنے کے سلسلے میں حکومتی اقدامات کا بطور خاص ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے احساس پروگرام کو حکومت کا فلیگ شپ قرار دیا۔ انہوں نے تعمیراتی شعبے کو دی گئی مراعات کو معاشی بہتری کے لئے مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے روزگار اور رہائش کی سہولیات ملیں گی۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقائ نے معاشی ترقی کو حالیہ درپیش کورونا وبا کے تناظر میں دیکھتے ہوئے اپنی آرا پیش کی ہیں۔ یقینا ایک ایسا ملک جو بھاری غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہو‘ جس کی برآمدات سے درآمدات کا حجم زیادہ ہو‘جہاں پیداواری شعبے کو ناقص بینکنگ نظام‘ بدعنوان ٹیکس حکام اور بجلی و گیس کی قلت کا سامنا ہو وہاں معمول کے طریقہ کار کے تحت معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔گزشتہ کچھ عشروں کے دوران پاکستان کی شرح نمو سالانہ 5سے 6فیصد رہی ہے۔2012ء میں یہ شرح 3فیصد پہ آ گئی۔ رواں برس کے آغاز پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ پاکستان کی شرح نمو1.5سے 2.5فیصد تک رہ سکتی ہے۔ کورونا وبا کے باعث صنعتی اور زرعی شعبے کے ساتھ خدمات کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس وبا نے قومی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تازہ تخمینوں میں بتایا جا رہا ہے کہ رواں برس پاکستان کی شرح نمو منفی 1.5تک گر سکتی ہے۔ ایسا ہونے کا مطلب ہے کہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوں گے‘ ہزاروں کارخانہ دار کنگال ہو جائیں گے اور معاشی بحران پہلے سے سنگین ہو سکتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشی قوت بننے کے لئے پاکستان کو اپنی شرح نمو 9فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے جو نئے حالات اور ضروریات سے ہم آہنگ شعبوں میں سرمایہ کاری سے ممکن ہے۔تاریخی طور پر پاکستان نے پانچ عشروں تک نہری کالونی کہلائے جانے والے علاقوں کی مدد سے اپنی معیشت کو استحکام دیا۔ بعدازاں صنعتی شعبہ حکومتوں کی ترجیح قرار پایا اور پھر سبز انقلاب کی پالیسی تیار ہوئی۔ان تمام عوامل نے معاشی ترقی کو کسی قدر پروان چڑھایا۔ اس وقت پاکستان کو بیرونی ممالک میں مقیم تارکین سالانہ 20ارب ڈالر سے زاید رقوم ارسال کر رہے ہیں۔ ان ترسیلات زر نے معاشی حوالے سے اپنی اہمیت ثابت کر دی ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لئے جن تجاویز کا بار بار ذکر کیا ان میں نئی منڈیوں کی تلاش اور تجارت کی حوصلہ افزائی‘ انسانی صلاحیت پر سرمایہ کاری‘ اراضی اصلاحات‘ مالیاتی شعبے میں اصلاحات‘ صحت اور تعلیم کے شعبے میں بہتری‘ امن و امان کی صورتحال میں بہتری‘ سرکاری ملکیت میں کاروباری اداروں میں اصلاحات‘ ریگولیٹری فضا میں بہتری‘ نجی شعبے کو متحرک کرنا‘ خواتین محنت کشوں کی حوصلہ افزائی اور ملازمتوں کی گنجائش پیدا کرنا شامل تھا۔ تحریک انصاف ٹیکس نظام میں اصلاحات اور زرعی شعبے کی ترقی کے لئے بھی پر زور دلائل دیتی رہی ہے۔ سیاحت اور شجر کاری کو بھی معاشی حوالے سے اہمیت دی جاتی رہی۔ دو برس تک مرکز میں اقتدار کے دوران اور سات سال سے کے پی کے میں حکومت کے باوجود تحریک انصاف اپنی ترجیحات پر کام شروع نہیں کر سکی۔ ٹیکس اصلاحات کا آغاز ہوا‘ ایف بی آر کے یکے بعد دیگرے کئی سربراہ تبدیل ہوئے۔ جو فیصلے شروع میں کئے اب ان کو واپس لیا جا رہا ہے۔ ریگولیٹری فضا بہتر کیا ہوتی پہلے سے خراب ہو گئی۔ اوگرا‘ نیپرا اور دیگر ادارے حکومتی اہداف پورے کرتے نظر نہیں آ رہے۔ نجی شعبہ ابھی تک متحرک ہوا نہ زرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی سے سہارا دیا گیا۔ اشیائے خورو نوش سے لے کر عام استعمال کی اشیا کے نرخوں اور سپلائی پر حکومت کا کوئی کنٹرول دکھائی نہیں دیتا۔ ان حالات میں موجودہ نظام سے یہ توقع لگانا کہ وہ معاشی بہتری میں مدد کرے گا‘ خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس وقت پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے جو امکانات موجود ہیں ان میں سب سے پہلے سی پیک کی تکمیل ہے سی پیک منصوبوں پر کام کی صورت میں پاکستانی خزانے کی بجائے غیر ملکی سرمایہ سے مقامی آبادی کو روزگار ملے گا اور ایک مستقل تجارتی سہولت دستیاب ہو گی۔ پاکستان میں قدرتی خوبصورتی سے مالا مال علاقے ہیں۔ حکومت ایسے پندرہ بیس نئے علاقے دریافت کر کے وہاں سیاحتی سہولیات کا انتظام کر دے تو سالانہ اربوں ڈالر کی آمدن ممکن ہے‘ کورونا وبا کے دوران قوم پر میڈیکل سائنس‘ میڈیکل انجینئرنگ اور دوا سازی کے قدرو منزلت کھلی ہے۔ وینٹی لیٹرز کی تیاری خوش آئند ہے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمارے جیسا قدرتی ماحول رکھنے والا بھارت دوا سازی میں بھاری زرمبادلہ کما رہا ہے ہمیں اس طرف ضرور توجہ دینا چاہئے تاکہ درآمدی بل میں کمی آ سکے۔
٭٭٭