mukarampeer@gmail.com
2020ءکی نومبر میں ہونے والے انتخابات پر پوری دنیا نظریں لگائے بیٹھی ہے۔بین الاقوامی سطح پر جمہوریت کا مستقبل داﺅ پر لگا ہوا ہے۔پہلے ہی انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے اہم موضوعات کمزور پڑتے نظر آرہے ہیں،سیاست کا انداز جارحانہ ہوتا جارہا ہے۔مستند میڈیا کو جھوٹی خبریںFake newsکہا جارہا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے بے بنیاد باتیں پھیلائی جارہی ہیں برداشت اور درگزر کا دور افتنا کوپہنچ رہی ہے جو بائیں غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں میں عام تھیں وہ بیماری اب ترقی یافتہ معاشروں میں سرائیت کر رہی ہیں۔مودی ہندوستان میں، نیتن یاہواسرائیل میں ،محمد بن سلمان سعودی عرب میں ،کہ ال سنگ جنوبی کوریا میں اور صدر پیوٹن روس میں جمہوریت کی صورت میں آمریت کو پروان چڑھانے میں مگن ہیں۔امریکہ میں نسبتاً پھر بھی جمہوری اقتدار کی کچھ نہ کچھ پاسداری ہے لیکن اگر موجودہ امریکی صدر دوبارہ منتخب ہوئے تو اپنے موجودہ دور کو بھی پیچھے چھوڑ دینگے ،پریس کی آزادی تو سب سے پہلے انکا شکار ہوگی۔امریکہ اب تک آزادی کو جمہوریت کی تقویت کیلئے لازم و ملزوم سمجھتا ہے لیکن صدر ٹرمپ کے پچھلے چار سالہ دور حکومت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ تنقید کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتے، یہ طرز عمل کسی جمہوری حکمران کو زیب نہیں دیتا ہے، حکمرانوں پر تنقید ہوتی رہتی ہے اور ہونی چاہئے جس حاکم وقت میں برداشت نہیں ہے کبھی اصلاح نہیں کرسکتا۔اس سے پہلے امریکہ انسانی حقوق کی پامالی کبھی برداشت نہیں کرتا تھا لیکن صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں جمال خشوگی کے بے دردی سے قتل کئے جانے کے باوجود کوئی قابل ردعمل سامنے نہیں آیا۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوںکے خون سے ہولی کھیلی جای رہی ہے ،کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے لیکن فیملی ،بچے ،بھوک سے بلاکتے رہے ،یمن میں ہسپتالوں پر سعودی عرب کے جنگی جہاز برستے رہے لیکن امریکہ نہ صرف خود خاموش رہا بلکہ اقوام متحدہ کو بھی دباﺅ ڈال کر ایک حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیا۔ماحولیاتی آلودگی پر اکیس ملکی معاہدہ جوکہ سابق صدر اوباما کی انتھک محنت سے معرض وجود میں آیا تھا وہ صدر ٹرمپ نے ختم کروا دیا۔پچھلے چار سالوں میں قدرتی آفات نے بھی یکے بعد دیگرے کراہ ارض کا رخ کرلیا ہے ،سمندری طوفان، زلزلے، سیلاب اور اب کرونا وائرس ،یوں محسوس ہو رہا ہے کہ زمین بھی انسانی بوجھ اور خصوصاً بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ اٹھا اٹھا کرتنگ آگئی ہے اور پھر ماحولیاتی آلودگی نے تو جیسے اونٹھ پر آخری تنکے کا کام کیا ہے، ان آفات نے غریب مالک کو تو بالکل تباہ کردیا ہے لیکن ساتھ میں امریکہ جیسے ملک کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔سمندری طوفانوں، زلزلوں اور سیلابوں نے کھربا ڈالروں کا نقصان کیا ،اب کرونا وائرس نے رہی سہی قصر پوری کر دی ہے ابتک پچاس ملین یعنی پانچ کروڑ امریکی جو کام کرنے والے امریکیوں کا13% فیصد بنتا ہے وہ بیروزگار ہیں۔غریب مسلمان کی امدادی رقمیں سب سے پہلے کٹوتی کا شکار ہونگی اور بھی عناصر ہیں جس میں امریکہ دن بدن بدحالی کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔سیلاب اور طوفانوں نے مواصلاتی نظام کے اہم خبر یعنی سڑکوں اور پلوں کا حال بھی نہایت خراب ہوچکا ہے۔امریکا کا جو حال اب ہوگیا ہے وہ کبھی نہیں تھا۔صدر ٹرمپ پھر سے صدر منتخب ہونے کیلئے پرتول رہے ہیں لیکن3نومبر2020ءمیں ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی پوزیشن تو بہت مضبوط نظر آرہی ہے لیکن3نومبر تک کیا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ،کوئی کہا نہیں جانتا۔2016ءاور2020ءمیں ایک فرق تو ہے کہ ریپبلکن پارٹی کئی سال سے یعنی2010ءسے ہی ہیلری کلنٹن کے خلاف کئی مقدمات کھول کر بیٹھ گئی تھی اور اس بیچاری خاتون پر نفسیاتی طور پر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔وہ زخم خوردہ خاتون ٹھیک سے اپنا دفاع بھی نہیں کرسکی لیکن آج کی ڈیموکریٹک پارٹی صدر ٹرمپ کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے مقبول ہوسکتی ہیں۔ڈیموکریکٹس کی طرف عوام کا رحجان بڑھ گیا ہے۔اس وقت جوبائیڈن کی سبقتLEADٹرمپ سے10/11پوائنٹس سے آگے ہے۔اہم ریاستوں میں جہاں ٹرمپ2016ءمیں کامیاب ہوئے تھے وہاں آج جوبائیڈن مقبولیت میں اول ہیں لیکن ابھی صدر ٹرمپ کے تھیلے میں کئی بلیاں موجود ہیں آخری تین ماہ کا مرحلہ انتخابات میں اہم ترین مرحلہ ہے لیکن پوسٹل بیلٹ زیادہ تر ستمبر کے مہینے میں پڑ جائیں گے۔صدر ٹرمپ غیر حاضر یا میل ان بیلٹ کو فراڈ(ممکن) کے اندیشے کے تحت رد کر رہے ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ریپبلکن پارٹی کو چاہیے جانے والی ریاستوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مکمل طور پر پوسٹل بیلٹ پر انحصار کرتی ہیں۔بہرحال کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کا یہی حال رہا تو پوسٹل بیلٹ ایک مجبوری بن جائے گا۔دنیا بھر میں گہری نظر سے نومبر بھر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کا جائزہ لے رہے ہیں کیونکہ ان انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے صدر کی پالیسیوں کا عالمی حالات پر گھر ہے اور دور س اثرات ہونگے۔صدر ٹرمپ کی فقاءکی صورتیں آمریت کو تقویب اور جوبائیڈن کے منتخب ہونے کی صورتیں انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے اہم مسائل پر زیادہ توجہ دی جائیگی۔ترقی پذیر ممالک کو ایک ریلیف ملنے کی امید تو باقی رہے گی دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!؟!۔