علم فلکیات !!!

0
197
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپکی خدمت مین سید کاظم رضا کا سلام پہنچے اور پاکستان کا 47 ویں یوم پیدائش اور37 ویں سالگرہ مبارک ہو یہ وہ دن ہے جب ہمارا پیارا وطن پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا اور ہمارا وطن پاکستان معرض وجود میں آیا ہم آزاد ہوئے نہیں بلکہ ہم پیداہی آزاد ہوئے ہیں ،آذادی تو ہندوستان کو ملی تھی برطانوی سامراج سے تو یہ باریک تکنیکی باتیں ہیں ان کو بیان کردیا وگرنہ میراموضوع اس کالم میں یہ نہیں ہے لیکن اہل قلم حب الوطنوں کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جو وہ ہر حال پوری کرتے ہیں۔
گذشتہ مقالہ جات میں گردش سیارگان اور اجرام فلکی پر گفتگو ہو اور ہماری بات جس جگہ آکر ختم ہوئی تھی وہ یہ بیان تھا کہ علم فلکیات کتنا قدیم علم ہے ہر علم کی ایک تاریخ اور عمر ہوتی ہے جس کی کھوج ہر طالبعلم کے دماغ میں ہوتی ہے اور اسکا تعار ف کرایا جائے تو اسکے جائے پیدائش خطے کی اقوام اور یہ علم کس کے سر جاتا ہے یہ لازمی زیر بحث آتا ہے، بحیثیت مسلمان ہمارا کامل ایمان ہے کہ اللہ رب العزت کو ہر بات کا علم ہے اللہ سے بڑا علم کا جاننے والے کوئی نہیں۔
اب دنیاوی علم اور مادی و سائنسی علم ہو یا فلکیات کا اس کا منبع تو اللہ کی ذات ہے جب انسان نے جستجو کی تو اس قادر مطلق نے کوشش اور جستجو کے ثمر کے طور پر انسان کو اتنا عطاءکردیا کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے اور اس کو پہچانے ، اب سے اندازً چار ہزار برس قبل حضرت ابراھیم کا واقعہ بھی قرآن پاک میں موجود ہے۔ فنظر نظرت فی النجوم۔ فقال انی سقیم۔( سورت الصفت آیت ۸۸/۸۹)
“حضرت ابراھیم نے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور کہا میں بیمار ہوا چاھتا ہوں،یہ اس وقت ہوا جب انکی قوم کسی میلے میں جو باہر منعقد ہورہا تھا جارہی تھی تو گھر والوں نے چلنے کا کہا تو آپ نے ساتھ نہ جانےکا عذر کرنے کیلئے کہا اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت ستاروں کا علم تھا اور اس وقت لوگ ستاروں کا علم جانتے تھے اورحضرت ابراہیم بھی ستاروں کا علم جانتے تھے ورنہ غلط عذر ہوتا تو کون تسلیم کرتا اس علم کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے یہ ہرمذہب اور معاشرہ کے تہذیب و تمدن کا حصہ رہا ہے اور اب بھی ہے اگر اس کو تلاش کیا جائے تو ہر جگہ نظر آتا ہے۔ مسئلہ رمضان المبارک یا عید کے چاند کا ہو یا سنت ابراہیمی کیلئے تاریخ تلاش کرنی ہو ، کہیں کسی مناسب کام کیلئے قمر در عقرب سے بچنا مطلوب ہو یا بچے کے نام کا حرف درکار ہو جبکہ کہیں کسی کی جنم کنڈلی بنوانی ہو یا کسی نحوست زدہ شخص کو اپنے زائچہ کے گھر میں زحل کی ساڑھ ستّی کامعلوم کرنا ہو یہ علم ہر جگہ اپنی اہمیت لیئے نظر آتا ہے ظاہری طور پر یا مخفی لیکن ہے اب ایک فلکیاتی علم کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم کن کواکب سے کام لینے کا اختیار دیں وہ بروج کو جانتے ہیں اور نیرین ( شمس و قمر ) کو بھی جانتے ہیں اور خمسہ متحیرہ ( یعنی عطارد۔زہرہ۔ مریخ۔ مشتری۔ زحل ) کو بھی جانتے ہیں جو ہمیں آنکھ سے نظرآجاتے ہیں ان دیئے گئے پانچ کواکب میں سے ہر ایک دو دو برج کا حاکم ہے اور شمس و قمر ایک ایک برج کے حاکم ہیں ،یہ زمانہ قدیم کا نظریہ ہے جو بارہ بروج کے حاکمان کی تقسیم کا ہے اور اس وقت کا ہے جب یورنس ، نیپچون اور پلوٹو ابھی معدوم بھی نہیںہوئے تھے تو اہل علم نے ہر ایک کوکب کے ماتحت زاتی برج رکھا اور ایک پر ان کو بحیثیت حاکم قائم مقام کے شمار کیا تھا تاکہ نجوم کے احکام میں کام لیا جاسکے اگر اسی قدیمی نظرئیے پر ایک دائرت البروج کھینچا جائے تو دلو کو زحل کے تحت دیں گے یہ اصول تو وہی رہے گا مگر ان کے شمار کا طریقہ بدل جائیگا ،اس لحاظ سے قمر کے برج سرطان کو نمبر ایک دینا پڑے گا دوسرے الفاظ میں سرطان اور اسد نئرین کو دیئے جائینگے اور ان کو ابتداءقرار دے کر شمار کیا جائے گا۔ لہٰذا عطارد کو ان کے بعد دو بروج پرحاکم قرار دیا گیا ہے ایک برج وہ جو شمسی لائن کا ہے اور دوسرا برج وہ جو قمری لائن کا ہے اس کے بعد زہرہ ہر دو اطراف سے عطاردی برجوں کے بعد کے برجوں پر حاکم قرار دیا گیا ہے پھر مریخ اور پھر مشتری پھر زحل ہر دو اطراف ( باالمقابل ) کے بروج کاحاکم قرار دیا گیا ہے لہذا اگر عطارد کو قمر کے بعد جگہ دیں تو جوزا کا حاکم عطارد قرار پائے گا اور نظرئیے سے زہرہ کو برج ثور کا حاکم زہرہ قرار دیں گے۔ زمانہ قدیم میں علمائے نجوم نے بروج پر کواکب کی تقسیم کا جو نقشہ مرتب کیا تھا اس میں ایک شمسی اور ایک قمری لائن ہے اس میں مریخ برج عقرب و حمل کا حاکم ہے مشتری برج قوس اور حوت کا حاکم ہے زحل برج جدّی اور دلو کا حاکم ہے زہرہ برج میزان اور ثور کا حاکم ہے اور عطارد برج سنبلہ اور جوزا کا حاکم ہے تمام کتب قدیم میں یہی لکھا ہوا پایا ہے۔
دور حاضر کے ماہرین نجوم کا کہنا ہے کہ شمسی لائن کے تمام بروج کے حاکم تو یہی کواکب ہیں لیکن قمری لائن کے بروج کے حاکم جب تک معلوم نہ ہونگے تو انہی کواکب کو ان کا قائم مقام تصور کیا جائیگا جوں جوں نئے کواکب معلوم ہوتی جائینگے ان کو ترتیب واربرج سے متعلق کردیا جائے گا چنانچہ اس زمانہ میں سن سے پہلے یورنس معلوم ہو اتھا تو زحل کے دوسرے برج دلو کا اصل حاکم قرار دیا گیا پھر نیپچون معلوم ہوا تو حوت کا اصل حاکم قرار دیا گیا اور مشتری کی قائم مقامی کو ختم کردیا گیا پھر پلوٹو معلوم ہوا تو حمل کا حاکم قرار دیا گیا اس کے بعد توقع ہے کہ جب ثور اور جوزا کے اصل حاکم کواکب کا علم انسان کو ہوجائے گا تو پھر یہ علم ہر پہلوسے مکمل ہو جائے گا اور پھر پورے فلکی نظام کا علم ہوجانے سے نجوم کے احکام انتہا ئی درست ہوں گے ،یہ دور یورنس اور نیپچون کے دور کے بعد کا ہوگا یعنی برقی ایجادات کے بعد کا دور ہوگا چونکہ سائنسدان اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ دو اور کواکب ضرور ہیں اس لیے تلاش میں مصروف عمل ہیں تاہم امید ہے کہ جلد فلکی کائنات کی باریکیوں کو سمجھنے کے اہل ہوسکیں گے اور یہ سہرا بھی بیسویںصدی کے موجدوں کے سر رہے گا کہ علم نجوم کی تکمیل بھی اس صدی کے انسان نے کی۔
اس کے ساتھ ہی آپ سے اجازت ان شاءاللہ اگلے ہفتے کا سبق یہیں سے شروع ہوگا جہاں اس کو چھوڑا گیا ہے اور جدید نظریہ فلکیات پر روشنی اور کواکب کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی جائیگی، اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے اور شاد و آباد رکھے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here