قارئین کرام! گزشتہ کالم ”یہ وہ امریکہ تو نہیں“ پر آپ کی پسندیدگی اور رد عمل کا جس طرح اظہار کیا گیا اس پر ممنونیت کیلئے ہمارے پاس تشکر کے الفاظ عنقاءہو گئے ہیں۔ ہم آپ کی محبتوں کو سراہتے ہوئے صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں آپ تک حقائق بلا کسی جھجک پہنچاتے رہیں اور آپ اس منظر نامے سے مکمل آگاہی حاصل کر سکیں۔ ہماری کوشش یہی رہے گی کہ دنیا بھر میں ہونےوالے واقعات و پیشرفت اور ان کے حوالے سے پیش آمدہ اثرات خصوصاً وطن عزیز، خطے اور جہاں ہم رہتے ہیں یعنی امریکہ میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ ہفتہ رفتہ یوں تو امریکہ و پاکستان سمیت متعدد اہم سیاسی، معاشی و دیگر حوالوں سے کئی واقعات کا حامل رہا ہے مثلاً امریکہ میں آمدہ انتخابات میں ڈیمو کریٹس کی جانب سے کامیلا ہیرس کی نائب صدارت کیلئے نامزدگی ٹرمپ کی اس پر تنقید اور کامیلا کو خطرناک قرار دینا، ڈیمو کریٹس کے انتخابی امیدواروں کی توثیق کیلئے کنونشن کا انعقاد، ٹرمپ اور جوبائیڈن کی حمایت کے حوالے سے عوامی رائے عامہ میں جوبائیڈن کی برتری، نیز ہمیشہ کی طرح ٹرمپ کی مختلف موضوعات پر قلا بازیاں (یو ٹرن) اور 3 نومبر کو اپنے حوالے سے خوبصورت ترین دن قرار دینا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں یوم آزادی پر ملت کا بھرپور جوش و جذبہ، مقبوضة کشمیر میں کشمیریوں کا یوم آزادی پاکستان پر تمام تر سختیوں اور بھارتی فوج کے جبر و استبداد کے باوجود جشن منانا جبکہ بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانا شامل ہیں۔ سیاسی تنازعے، الزام تراشیاں اور جوابی الزام بازی تو پاکستانی سیاست کا روٹین حصہ ہے اس وقت کراچی کے حوالے سے سندھ اور وفاق آپس میں دست و گریبان ہیں۔ تاہم اس وقت جو اہم ترین واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کے اثرات بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے پر منضبط ہو سکتے ہیں وہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونےوالی پیشرفت ہے۔
گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان امن معاہدہ عمل میں آیا۔ یو اے ای جو ماضی میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تھا اس نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کیا بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان سیکیورٹی، تجارت، رابطوں اور مختلف شعبوں میں مشترکہ اقدامات و عملداری پر اتفاق کی رضا مندی سامنے آئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس معاہدے کا انکشاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا، آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ایک کالم میں ہم نے نشاندہی کی تھی کہ بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں جب دنیا دو حصوں یا بڑے گروپس میں تبدیل ہونے جا رہی ہے، امریکہ اپنے متاثر ہوئے اختیار کو سنبھالنے اور ایشیاءخصوصاً جنوبی ایشیائی خطے میں چین و روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر خطہ¿ عرب خصوصاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر و دیگر ممالک کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرےگا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ امریکہ پہلے ہی دیگر عرب ممالک کو محصور کر چکا ہے یا برباد کر کے لا یعنی بنا چکا ہے گزشتہ کچھ عرصے میں جس طرح ترکی سامنے آیا ہے ایران نے روس و چین سے روابط و معاہدات کر کے بھارت کی چھٹی کر دی ہے اس تناظر میں امریکہ اس کے یورپی حلیفوں اور اسرائیل کو آنے والے وقت کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا اور اپنے مفاد کیلئے انہیں کچھ نہ کچھ اقدامات تو کرنے ہی تھے سو یہ امن معاہدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ معاہدہ یکدم نہیں ہوا بلکہ اس حوالے سے بیک ڈور چینل سرگرمیاں عرصے سے جاری تھیں۔ محض امارات نہیں یہ سرگرمیاں سعودی عرب اور قطر کےساتھ بھی جاری ہیں اور جلد آپ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ ان ممالک نے بھی اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیا ہے بلکہ متعدد باہمی معاہدے بھی عمل میں آجائیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاہدے یا بعد ازاں اسرائیل کو دیگر ملکوں کے تسلیم کرنے سے امریکہ کو تو نہ صرف دنیا میں اپنی رٹ برقرار رکھنے میں سہولت ہوگی بلکہ نومبر کے انتخاب میں ٹرمپ کے حق میں خصوصاً صہیونی ووٹ کامیابی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان عرب ممالک کیلئے کیا ثمرات ہو سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی یہودیوں اور عربوں کے درمیان فلسطین کے حوالے سے اور فلسطینیوں کے حقوق کے معاملے پر اختلاف رہا اور اس حوالے سے 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ بھی ہوئی۔ عرب ریاستوں کےساتھ PLO الفتح، انتفادہ اور اب حزب اللہ کی جدوجہد بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ صورتحال یہ بنی کہ مصر و اردن نے اسرائیل سے امن معاہدے کر لئے، عراق، لیبیا، لبنان وغیرہ تباہ و برباد کر دیئے گئے یا ایسے حکمران مسلط کر دیئے گئے جو امریکہ کے اشارہ ابرو پر راضی بہ رضا رہے۔ اقوام متحدہ کی دو ریاستی فارمولے کی قراردادیں اسی طرح سرد خانے کی نذر ہیں جیسے مقبوضہ کشمیر کیلئے استصواب رائے کی قراردادیں سرد مہری کی لپیٹ میں ہیں۔ وہاں فلسطینی اسرائیل کی توسیع پسندانہ حرکتوں اور ظلم و ستم کا شکار ہیں تو کشمیر میں کشمیری بھارتی ہندو پرستوں کے جبر و قہر کا شکار ہیں اور دونوں جانب ظالموں کو امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا کی سیاست ممالک کے اپنے مفادات کے تحت گُھوم رہی ہے۔ مذہب، عیقدے، قومیت کے نظریات پس پُشت چلے گئے ہیں۔ عرب دنیا کی تاریخ تو اس کا بڑا مظہر ہے کہ مسلم دعوﺅں کے باوجود ہمیشہ عرب قومیت کے فلسفے پر عمل پیرا رہی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم امہ کے نام پر بننے والی OIC محض ایک دکھاوا بن کر رہ گئی ہے، نہ فلسطین کے حوالے سے اس کا کوئی کردار نظر آتا ہے اور نہ ہی کشمیر یا دیگر اُمہ مسائل کے حوالے سے اس کی کوئی آواز ہے۔
حالیہ یو اے ای، اسرائیل واقعہ کے حوالے سے جائزہ لیں تو مسلم ممالک میں صرف ایران، ترکی، ملائیشیا اور پاکستان ہی ہیں جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کی مخالفت کی ہے اور اس معاہدہ کو فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پاکستانی ریاست اور حکومت نے اس معاہدے کو واضح طور پر مستقبل میں بڑے مضمرات کا باعث قرار دیا ہے افسوس کہ اس ایشو پر بھی ہماری حزب اختلاف اسی طرح منفی سیاست کر رہی ہے حکومت و ریاست کے واضح مو¿قف کے باوجود مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کا مو¿قف دیا ہے کیا وہ پاکستان کے مفاد میں ہے؟ پاکستان کا بنیادی نقطہ¿ نظر فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں، دو ریاستی اور فلسطینیوں کے حقوق کی توثیق کے حوالے سے ہے۔ اگر پاکستان اس مو¿قف سے ہٹتا ہے تو یہ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے مو¿قف سے روگردانی ہوگا جو کسی بھی طرح پاکستان اور کشمیریوں کی آزادی کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ فضل الرحمن اور اسفند یار ولی جیسے سیاستدان بُغض عمران میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی ملا ڈیزل ہے جو عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتا رہا ہے آج عمران خان اسرائیل کے حوالے سے مو¿قف تبدیل کر لے تو یہی شیطان ذہنیت کے سیاسی گرو اس کی دھجیاں بکھیر دینگے۔ اندازہ کیجئے کہ اس واقعہ پر پاکستان کا کوئی بھی مذہبی ٹھیکیدار احتجاج کرتا ہوا نظر نہیں آیا ہے ہاں اگر حکومت کوئی قومی مفاد کا فیصلہ کر لے تو یہ سارے احتجاج اور مخالفانہ رویوں پر اُتر آئیں گے۔
ہم نے اوپر کی سطور میں عرض کیا ہے کہ فی زمانہ دنیا کے ممالک کی سیاست ان کے اپنے مفادات و اسٹریٹجی کے تناظر میں استوار ہوتی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات اور خطے کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کی حالیہ معاشی، قومی، خارجی پالیسیاں یقیناً اسی حوالے سے ہونی چاہیئں جو پاکستان کے مفاد میں ہوں اور موجودہ حکومت و ریاستی ادارے جس پالیسی کو لے کر چل رہے ہیںو ہ یقیناً مثبت اور ملک کے مفادات میں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنی میں نہ مانوں والی پالیسی سے اجتناب کرتے ہوئے قومی و خارجی امور پر زبردستی کی مخالفت سے باز آئے اور اپنے نہیں ملک کے مفاد کو سوچے۔ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں!!!
٭٭٭