پاکستان اور چین کے درمیان طے پایا ہے کہ سی پیک فیز ٹو منصوبوں کو بروقت مکمل کیا جائے گا‘ دونوں ممالک کے مابین سی پیک منصوبے میں دیگر ممالک کی شرکت کا خیر مقدم کرنے پر اتفاق ہوا۔ دونوں ممالک نے ہر اس اقدام کی مخالفت کا عزم کیا جس سے مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ ہو۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ کلیدی مفادات کے معاملے میں پاکستان اپنے دیرینہ دوست چین کے ساتھ ہے۔ پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ حالیہ دنوں یہ تاریخی تعلقات ایک نئی شراکت داری میں ڈھلے ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد امریکہ کو جنوب مشرقی ایشیا میں طاقت کا توازن اپنے قابو میں رکھنے کے لئے ایک مضبوط اتحادی کی ضرورت ہے۔ یہ اتحادی مشرق وسطیٰ‘ ایران اور وسط ایشیا تک امریکی مفادات کا محافظ ہوگا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ماضی کے معاملات کو الگ رکھ کر جب پاکستان کو نئی شراکت داری کی پیشکش کی تو پاکستان نے واضح موقف اپنایا کہ وہ اب غیروں کی جنگیں نہیں لڑے گا۔اس پر امریکہ نے بھارت کو نیا شراکت دار بنانے کا اعلان کیا اور بھارت نے اس کے بدلے کشمیر اور دہشت گردی کے خلاف اپنا بیانیہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بھارت نے اردگرد کے ممالک کو دفاعی اور تجارتی مسائل میں الجھایا تو پورے خطے میں اسے ایک مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔دراصل یہ چین ہے جس نے جنوبی ایشیا کے ممالک کو یہ راستہ دکھایا ہے کہ وہ پرامن رہ کر اور تجارتی تعلقات بڑھا کر اپنے عوام کوغربت کی چکی سے نجات دلا سکتے ہیں۔پاکستان اور چین کی دوستی ہر طرح کے حالات میں مستحکم رہی ہے‘ اچھی ہمسائیگی سے دفاعی تعاون اور پھر سٹریٹجک شراکت داری نے دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔ وزیر خارجہ کے دورہ اور چینی صدر کے صدر مملکت کو ارسال کئے گئے خطوط سے ان بہت سی افواہوں کو ختم ہو جانا چاہیے جو پاک چین تعلقات کو منفی رخ سے دکھانے والے حلقے پھیلا رہے تھے۔ چین کا موقف رہا ہے کہ یہ ایک قدرتی وائرس ہے جس کا چینی قوم نے دلیری سے مقابلہ کیا۔پاکستان چین پر لگائے گئے امریکی الزامات کو مسترد کرتا ہے اور امریکی نکتہ¿ نظر کو ایک آزاد ریاست کو عالمی تنازعات میں الجھانے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں تشدد، جنگ و دشمنی کا ماحول ہو ایسے میں دو ممالک جو نظریاتی لحاظ سے یکسر مختلف ہوںلیکن ان کی دوستی دنیا بھر کے لئے ایک مثال ہو وہ پاک چین دوستی ہے۔ پاکستان اور چین نہایت قریبی، سیاسی، معاشرتی، معاشی تعلقات کی بنا پر دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ یہ تعلقات پچھلی سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ اس تعلق کی جڑیں نہایت گہری اور پائیدار ہیں جو کہ یقیناً دونوں ممالک کی قیادت کی سمجھ بوجھ اور مستقبل کے مشترکہ نقطہ نظر کی وجہ سے ممکن ہوسکی ہے۔ پاکستان کی سفارتی تاریخ کا ایک عظیم حصہ وہ تاریخی کردار ہے جس کو نہ صرف چین نے بلکہ دوسرے ممالک خاص طور پر امریکہ نے بھی سراہا۔ پاکستان نے امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر کے بیجنگ کے خفیہ دورے کے انتظامات کئے۔ جس کی وجہ سے بالآخر چین امریکہ سفارتی تعلقات قائم ہوسکے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے چین اور عرب دنیا خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ اس پاکستانی کردارکو چین نے کبھی فراموش نہیںکیا۔ چین نے شروع ہی سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مو¿قف کی حمایت کی۔ خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور بار بار پاکستان کی اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں حمایت کی۔امریکہ بھارت نیوکلیئر ٹیکنالوجی برائے امن معاہدے کے بعد پاکستان نے چین کے ساتھ اس مخصوص نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے بات چیت کی جو بہت کامیاب رہی۔ چین نے پاکستان کے لئے نیوکلیئر توانائی کے پرامن استعمال کی پالیسی کی حمایت بھی کی اور اس کے حصول میں مدد کی۔ سی پیک کے منصوبے کی بنیاد 2013میں رکھی گئی اور نومبر 2016 میں اس بڑے پروجیکٹ کے ایک حصے نے کام شروع کر دیا۔ کامیابی کے بعد چین نے اس منصوبے پر سرمایہ کاری میں اضافے کا عندیہ دیا جو اب 62بلین تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت سی پیک کی کامیابی کے لئے پرامید ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ سی پیک پاک چین دوستی میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اور دونوں ممالک کو اس منصوبے کی تکمیل سے بے انتہا معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔واضح رہے کہ چین نے نومبر 2019 میں پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے میں کرپشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا سی پیک پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے احتیاط کرے۔
٭٭٭