اے عرض فلسطین عرب تیرے دشمن!!!

0
476

عرب شیخوں اور شاہوں کے بیت المقدس قبلہ اورل پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرنے پر پاکستان کے مشہور انقلابی شاعر حضرت حبیب جالب کی نظمیں یاد آگئیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں ارض فلسطین پر لکھی تھیں کہ جس میں جالب مرحوم فرماتے ہیں کہ!
شیوخ و شاہ تو ہیں خود شریک ظلم و ستم
شیوخ و شاہ سے رکھو نہ کچھ امید کرم
شیوخ و شاہ کو سمجھو نہ پاسبان حرم
یہ بندگان زر وسم ہیں خدا کی قسم
شیوخ و شاہ کب ہیں ہمارے پیارے لوگو
ہمارا خون پیتے ہیں یہ سب مکار اے لوگو
یہ تخت و تاج والے غاصبوں ہی کے مصاحب ہیں
ہمارے راستے کی یہ بھی ہیں دیوار اے لوگو
یہ مانگتے ہیں دعائیں برائے اسرائیل
کہ اسرائیل سے ہیں بادشاہتیں قائم
تاہم ریاستوں کے وہ حکمران جو اسرائیل کےساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں یا قائم کرنا چاہتے ہیں یا منظر میں یہ سب کے سب یزیدیت کے مرتکب کہلائیں گے جنہوں نے دنیا کی واحد ظالم اور جابر اسرائیلی صہیونی طاقتوں کا ساتھ دیا ہے جو ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی ریاست ہے جس کو برطانوی سامراج نے جبری طور پر قائم کرنے کی سازش کی جس کے اتحادی اور ساتھی عرب حکمران بھی ہیں۔ اسرائیل کےخلاف گزشتہ سات دہائیوں سے اہل فلسطین کے قدیم باشندوں کی جدوجہد جاری ہے جس کو پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ ارض فلسطین کے سینے پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا چونکہ صہیونیت ایک طاقت ہے جو مغرب پر سیاسی اور مالی طور پر قابض ہے جس کے سامنے جھک کر اسرائیل کو وجود میں لایا گیا جو اب عربوں کے گلے پڑ چکا ہے۔ صہیونی طاقتوں کا فلسفہ توسعی پسندی میں عراق، سعودی عرب، لبنان بھی شامل ہیں جس کو مقدس زمین کے نام سے پکارتے ہیں کہ یہاں یہاں حضرت ابراہیمؑ گئے ہیں وہ یہودیوں کی سر زمین ہے حالانکہ یہودی مذہب کے پیروکاروں نے انبیائے اکرام کو قتل کیا ہے جو خدا تعالیٰ کی دھتکارا ہوا گروہ کہلاتا ہے مگر آج وہ دنیا بھر میں طاقتور بن کر سامنے آچکا ہے جس کے سامنے خلفائے راشدین، عیسائیوں، فلسطینیوں، ایوبیوں، عثمانیوں کی نسلیں بے بس نظر آرہی ہیں جن کے دور حکومت میں بیت القمدس قبلہ اول آزاد رہا جس میں مسلمان، عیسائی اور یہودی اپنی اپنی عبادت رکتے چلے آرہے ہیں جس کی مسلمان حفاظت رکتے رہے بہر کیف وہ حکمران طبقہ جو اسرائیل کی مخالفت کرتا چلا آرہا ہے وہ کاروان حسینیت کے پیروکار ہیں جن کا شہادت کے بعد بھی نام زندگہ و پائندہ ہے بعض حضرات اسرائیل کے معاملے میں حوصلہ شکنی کا پرچار کر رہے ہیں کہ فلسطین کب آزاد ہوگا۔ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے عربوں نے مان لیا تو ہم کیوں نہ تسلیم کرلیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ فلسطین کا علاقہ بیت المقدس قبلہ اول ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ قبلہ اول پر غیر مسلمان کا قبضہ قبول نہیں کیا جائےگا جس کےساتھ حضور پاکﷺ کا معراج شریف پر اس مقام سے جانا ہے۔ پھر مسلمانوں کا پہلا قبلہ اول کہلاتا ہے لہٰذا مقام ہر صورت میں مسلمانوں کے زیر کنٹرول ہونا چاہیے جس میں تینوں مذہب پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ ہو۔ لہٰذا حیلوں بہانوں سے ارض فلسطین کے مقدس مقامات کو کسی بھی حالت میں دوسروں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا چاہے قبلہ اول کے حصول کیلئے صدیاں لگ جائیں، اگر ہندوستان دو سو سال، ساﺅتھ افریقہ تین سو سال، یا دوسرے نو آبادیاتی ممالک صدیوں بعد آزاد ہو سکتے ہیں تو فلسطین بھی آج نہیں تو کل آزاد ہوگا۔ بہر کیف اہل فلسطین نے بلا تفریق مذہب مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں نے فلسطین کی آزادی کیلئے بے تحاشہ قربانیاں دی ہیں جس میں عیسائی بش ،امریکہ کا نام سر فہرست ہے لہٰذا فلسطین کی آزادی صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے جو آج تک ڈٹے ہوئے ہیں بہر حال ارض فلسطین کے شہر یروشلم بیت المقدس قبلہ اول کی سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے آزاد کرایا تھا جس کے بعد عباسیوں کے دور خلافت میں آزاد رہا پھر ایک وقت آیا کہ یروشلم پر صلیبیوں کا قبضہ ہو گیا جس پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے تین سو سال صلیبی جنگیں لڑتے رہے جس کو آخر موصل کے عظیم مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے آزاد کرایا جو بعد ازاں 1920ءتک خلافت عثمانیہ کی حفاظت میں رہا۔ جب برطانوی استعماریت نے خلافت عثمانہ کو کمزور کر دیا تو اس نے صوبوں کو عرب ملکوں میں بانٹ دیا جو خلافت عثمانیہ کےخلاف برطانوی سازشی استعماریت کا ساتھ دے رہے تھے مگر فلسطین کو اسرائیل کے حوالے کر دیا جو دنیا کی ایک قدیم ریاست ہے جس پر کبھی رومنز اور کبھی مسلمان حکمران رہے۔ وہ ارض فسلطین گزشتہ 72 سالوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جنہیں صدام حسین، قذافی اور کرنل ناصر کے بعد عربوں نے یتیم کر دیا ہے کہ آج ان کی آزادی سلب ہو کر رہ گئی ہے جس پر اس صہیونی طاقت کا قبضہ ہے جس نے ہولوکاسٹ میں جرمن ہٹلر کا ساتھ دیا تھا تاکہ یہودیوں کیلئے یورپ میں زمین تنگ ہو جائے جو نئی ناجائز ریاست اسرائیل میں آکر آباد ہوں، قصہ مختصر ارض فلسطین عربوں کا نہیں ہر مسلمان کا مسئلہ ہے اگر فلسطین آزاد نہیں ہوگا تو کشمیر بھی کبھی آزاد نہ ہو پائےگا دونوں کی دشمن صہیونی طاقتیں ہیں۔ دونوں پر مسلمان دشمن طاقتیں قابض ہیں لہٰذا پاکستان کو یہ سوچنا بھی گناہ ہو گا کہ اسرائیل کو کسی بھی حالت میں تسلیم کیا جائے جس کا پرچار جنرل ضیاءالحق، جنرل مشرف سے لے کر آج تک جنرل شعیب کی شکل میں ہو رہا ہے جس میں عمران خان کے پارلیمنٹیرین بھی شامل ہیں جو عربوں کے تسلیم کرنے کا بہانہ بنا کر ایک ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں ،یہ جانتے ہوئے انسانیت پر ظلم و ستم کے علاوہ فسلطین مقام مقدسہ بیت المقدس قبلہ اول کا حامل ہے جو انبیائے اکرام کی جائے پیدائش اور جائے آرام گاہ بھی ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ کے علاوہ حضرت موسیٰ نہ جانے کتنے انبیائے اکرام آرام فرما رہے ہیں ،ایسے مقامات کی حفاظت صرف اور صرف مسلمانوں پر فرض بنتی ہے جس سے انکار دین سے انکار ہوگا۔ لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مختلف جواز نہ ڈھونڈیں جائیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here