Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
ویسے تو مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ جس میں23مارچ1940کی قرار داد لاہور23مارچ کو1956کا پہلے آئین کا نفاذ9مارچ کی وکلاءتحریک16مارچ کو عدلیہ کی بحالی چھ مارچ کو گیلانی کی جیت ،سات مارچ کو عمران خان کا بداعتمادی کا ووٹ،بارہ مارچ کو اکثریت کا اقلیت میں تبدیلی اور26مارچ کو لانگ مارچ کا دمادم مست قلندر قابل ذکر ہے۔جس میں بارہ مارچ کو53ووٹوں والا امیدوار یوسف رضا گیلانی کے ووٹ کم کرکے42رہ گئے ہیں جس میں سات ووٹ مسترد کرکے ناکام بنایا گیا جبکہ43ووٹوں والا باپ نامی پارٹی کے امیدوار صادق سنجرانی کو ایوان بالا کا چیئرمین بنا دیاگیا جس کے خلاف اپوزیشن عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہے جو آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے کہ پاکستان میں منتخب نمائندوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جاتا ہے۔جس پر عدالتوں کو فوری ایکشن لینا ہوگا ورنہ ملک میں اداروں کے وجود سے انکار ہو جائے گاجو موجودہ فیڈریشن کے خلاف سازش کے مترادف ہے۔تاہم چھ مارچ کا سینٹ کے چیئرمین کا انتخاب میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا کہ جس کا چند دنوں تک پہلے ذکر عام تھا کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوچکی ہے جو ایک غلط فہمی پر جنسی مفروضہ تھا جس کا مظاہرہ چھ مارچ کو ہوا کہ جب ایوان بالا میں کیمروں سے پارلیمنٹرین کی جاسوسی کی گئی جو آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کہ خفیہ بیلٹ نظام میں پارلیمنٹرین کی ووٹنگ یا دوسری حرکت سکنات کو دیکھا جائے جس کے جرم میں واٹرگیٹ اسیکنڈل میں امریکی صدر رچرڈبنکسن اپنی صدارت کھوہ بیٹھا ہے بشرطیکہ امریکہ کی طرح پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ آزاد اور خودمختار ہو تو پاکستان میں بھی عمران خان یا موجودہ صدر کا سخت مواخذہ ہوسکتا ہے۔کیونکہ ایوانوں پر اہلکاروںاور نگہبانوں کی نامزدگی حکومت پاکستان کرتی ہے۔جن کی موجودگی میں جاسوسی کے کیمرے اور آلات لگائے گئے ہیں۔دوسرا الیکشن میں یکطرفہ جانبدار پرائزیڈنگ افسر جو بذات خود حکومتی اتحادی سینٹر ہے ۔ان کی رولنگ غیر قانونی،غیر آئینی اور غیر اخلاقی گزری جنہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے امیدوار کے خانے میں نام کے سامنے یا نام پر ووٹرز کی لہر پر لگانا بالکل رولز کے مطابق تھا۔مگر پرائزیڈنگ افیسر نے نام پر لگی ہوئی مہر کو غلط ووٹ قرار دے کر سرکاری امیدوار صادق سنجرانی کو کامیاب قرار دیا جس کا معاملہ اب عدالت میں جارہا ہے جو ان سات ووٹوں کی قسمت کا فیصلہ کرےگی کہ ووٹرز کی مرضی کیا تھی۔یا پھر نام پر مہر لگانے سے ووٹ رد ہوسکتا یا نہیں جس پر بعض جاہل حکومتی تجزیہ نگار وکیل اور دانشور فرما رہے ہیں کہ سینٹ کے انتخابات میں بے قاعدگیوں، زیادتیوں اور غلط فہمیوں کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے جوکہ نہایت گمراکن پروپیگنڈہ ہے یہ جانتے ہوئے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی سماعت کارروائی غلط بیانی، گالی گلوچ، جھوٹی تقاریر ہتک آمیز بیانات کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے مگر پارلیمنٹ کے سپیکر ،ڈپٹی سپیکر ،سینٹ کے چیئرمین ،ڈپٹی چیئرمین یا پھر وزیراعظم کے پارلیمنٹ کے چناﺅ کو عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جبکہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کی عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا حکومتی غلیظ پروپیگنڈے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔بہرکیف سینٹ کا الیکشن جس میں اپوزیشن کو برتری حاصل رہی ہے۔قومی اسمبلی کے ممبران نے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ منتخب کیا ہے۔یا پھر ضمنی انتخابات میں عمران خان کے ڈاکو اور قاتل ٹولے کو بری طرح شکست فاش ہوئی ہے جس کے بعد ثابت ہوگیا کہ25جولائی2018ءکے انتخابات ایک ڈھونگ تھا جس میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا آج پھر سینٹ میں اسی طرح اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا ہے۔جس کے بڑے دور میں نتائج برآمد ہونگے۔جس میں پنجاب کا موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید نفرت اور ردعمل بھی قابل ذکر ہے کہ ہر پاکستانی خصوصاً پنجابی سمجھ چکا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے سیاسی،معاشی، آئینی اداروں میں مداخلت کر رہی ہے۔جس کا اظہار پی ڈی ایم کی قیادت کھلم کھلا کر رہی ہے کہ بعض جنرل پاکستان کے اداروں میں مداخلت کرکے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کے ثبوت بارہ مارچ کے سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر پائے گئے جس بارے میں پورے ملک میں گونج سنائی دے رہی ہے۔بہرحال انتخابات میں چوری ،ڈاکہ زنی،دھاندلی ،فراڈ ملکی مہنگائی ،بے روزگاری، بھوک، ننگ میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف26مارچ کو لانگ مارچ کو آغاز ہونے جارہا ہے جس کا مظاہرہ چار دن تک جاری رہے گا۔جو تیس مارچ کو راولپنڈی اور اسلام آباد پہنچے گی۔مظاہرے کے دباﺅ ،تعداداور اثرات کا پتہ صرف اسلام آباد میں ہی چلے گاکہ پی ڈی ایم کتنی مضبوط اور کامیاب ہوتی ہے، یہ اب وقت بتائے گالیکن نتائج بڑے خوفناک برآمد ہونگے جس کا ادراک طاقتور اداروں کو نہیں ہے۔