تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پندرھویں اور سولہویں صدی تک تو مغرب میں اس قسم کے نظریات نہ تھے، یعنی وہاں بھی زندگی گزارنے کےلیے رہنمائی مذہب سے لی جاتی تھی۔ مگر ریاست، کلیسا کے بہت سے غلط فیصلوں کے باعث لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاو¿ نہیں ہورہا۔ حتیٰ کہ سائنس کے نئے نظریات پیش کرنے والے سائنسدانوں کو بھی سخت ترین سزائیں دینے کا عمل شروع کردیا گیا، جس کے نتیجے میں مغرب میں مذہب مخالف نظریات تیزی سے پھیلنے لگے۔ یہاں تک کہ مذہب مخالف روشن خیالی کے نظریات بھی پھیلنے لگے۔ مزید یہ کہ خود مارٹن لوتھر جیسے پادری نے مذہب کی روایتی تعلیمات کے برعکس دنیا پرستی پر مبنی نظریات کا ایک نیا فرقہ پروٹسٹنٹ متعارف کرادیا۔ اس نئی فکری لہر سے مغرب میں مذہب فرد کا ایک ایسا نجی معاملہ بن گیا کہ کوئی فرد خود اپنی ذات میں تو مذہب پر عمل کرنے میں آزاد رہا، مگر اپنے گھر، معاشرے اور ریاست میں ایسا عمل کرانے سے محروم کردیا گیا۔ یعنی باپ خود شراب پینا حرام سمجھتا ہے تو نہ پیے یہ اس کی آزادی ہے، مگر وہ اپنے بیٹے کو منع نہیں کرسکتا، نہ ہی معاشرے میں قائم کسی شراب خانے کو بند کرانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اب بیٹا یا بیٹی رات کو شراب پی کر گھر آئیں تو یہ ان کا نجی معاملہ ہوگیا۔ باپ کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ یہ نظریہ دراصل مغرب میں آزادی کا بنیادی نظریہ ہے، جس میں ہر شخص اپنی مرضی سے جی سکتا ہے اور یہ طے کرسکتا ہے کہ کیا کرنا غلط یا گناہ ہے اور کیا کرنا درست ہے۔ گویا ہر انسان کو خدا کا درجہ مل گیا۔ لہٰذا اب انسان اپنی مرضی پر چلے گا، خدا کی مرضی پر نہیں۔ اس نظریے کو تمام ترقی یافتہ ممالک میں قبول کرلیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان ممالک میں زنا اور جوئے کے اڈے، شراب خانے اور دیگر ایسی سہولیات کے مراکز قانونی طور پر قائم ہیں، جو وہاں کے اکثریتی مذہب مثلاً عیسائیت کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ مگر وہاں نہ تو پادری کی نصیحت مانی جاتی ہے نہ ہی کسی پادری کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ عملاً ان سب برائیوں کے خلاف تحریک چلائے۔چنانچہ وہاں اس سب کا وہ نتیجہ نکلا جو کسی بھی مذہب کے نزدیک درست نہیں۔ مثلاً سیکس کےلئے کھلونے اور جانوروں کے مراکز بھی دستیاب ہیں۔ شادی کرنے کےلئے قانونی طور پر اپنی ہی جنس، یعنی مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کرسکتی ہے اور بغیر نکاح کے اسکول کی عمر سے کسی کے ساتھ جنسی تعلقات بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ بچے کے والد کی جگہ اپنا نام قانونی طور پر لکھوالے تاکہ بے شمار مردوں سے تعلق رکھنے کے بعد والد کا نام تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یوں نکاح کو ایک قابل شرم اور بغیر نکاح کے تعلقات کو قابل فخر بنادیا گیا ہے۔یہ آزادی صرف عورتوں کے حوالے سے ہی نہیں، ہراعتبار سے ہے، بس مذہب مخالف ہونا شرط ہے۔ یعنی مغرب نے ریاست اور کلیسا کی غلطیوں اور ظلم کا بدلہ اس طرح لیا کہ اب انفرادی زندگی ہو یا معاشرتی یا ریاستی قوانین، سب کے سب مذہب مخالف بنادیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں امریکی صدر اوباما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر یہ کہہ گئے کہ اگر امریکہ میں کسی نے قرآن شریف کو آگ لگائی تو یہ اس کی آزادی یعنی اس کی فریڈم کا حق تھا، اس پر مسلمانوں کو چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ انھیں بھی ایسی ہی آزادی اپنے ملک میں قائم کرنی چاہیے۔ اسی طرح فرانس میں جب خاکے بنا کر توہین کی گئی تو فرانسیسی صدر نے بجائے معافی مانگنے کے الٹا اس عمل کی حمایت کی کہ یہ ’فریڈم آف اسپیچ‘ یعنی اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ ہے۔ مختصر یہ کہ عورتوں کو بھی مغرب میں ایسی ہی آزادی میسر آچکی ہے اور وہاں کے فلاسفروں نے اس میں مزید اضافے کا ہی مطالبہ کیا ہے۔ مثلاً دلیوز کا کہنا تھا کہ ابھی آزادی ملی ہی کہاں ہے، ابھی تو محرم نامحرم کا فرق باقی ہے، یعنی بہن بھائی آپس میں شادی کرنے کی آزادی نہیں رکھتے۔ بعض ممالک میں خواتین تحریک چلا رہی ہیں کہ انھیں جسم فروشی کا قانونی حق دیا جائے، کیونکہ مرد رات گزارنے کے بعد اکثر اجرت نہیں دیتے۔یوں مذکورہ مغربی معاشرے کے تصور آزادی کے بعد اب پاکستان میں بھی ایسی ہی آزادی کا حق سڑکوں پر آکر مانگا جارہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ حالیہ اسلام آباد کے عورت مارچ میں فرانس کے ملک، جہاں توہین رسالت کے ضمن میں کارٹون بنائے گئے تھے، کا جھنڈا بھی لہرایا گیا۔ہمارے ہاں بھی مغرب کی مذکورہ آزادی سے متاثرہ خواتین و حضرات ایسی ہی آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔اب اس پس منظر کے بعد ہم باآسانی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا ہمیں اس مارچ میں بھرپور شرکت کرنے والوں کا ساتھ دینا چاہیے یا اس کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔