پیر مکرم الحق،انڈیانا
اض سے آگاہی کی ضرورت“
ترقی یافتہ ممالک میں بھی ذہنی امراض سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے،ترقی پذیر ممالک جہاں پر ناخواندگی کی شرح بھی کم ہے۔تعویذ، گنڈوں اور کالے جادو کی خرافات بھی تمام ایسے معاشروں میں موجود ہیں جہاں دقیانوسی سوچ اور تو ہم پرستی کا راج ہے۔پاکستان میں تو ذہنی امراض کا لفظ بھی بطور گالی اور تضحیک کے برابر سمھا جاتا ہے لیکن درحقیقت ایسے معاشرے میں معلومات کی کمی کا باعث ذہنی امراض پر ڈائیلاگ(مذاکرات)کی کمی ہے اور تو اور اگر کوئی نفسیات کا طالبعلم بننا چاہتا ہے تو پہلے تو اس کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے اور بعد میں اگر کوئی ماہر نفسیات بن بھی جائے تو اس کے قریبی حلقہ بھی ”چریا“ یا پاگل سمجھتے ہیں۔کیونکہ اس بیچارے کا زیادہ وقت ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کے ساتھ گزرتا ہے اسی وجہ سے آج بھی پاکستان میں ماہر نفسیات کی نہایت قلیل تعداد تیار ہو پائی ہے۔بائیس بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں ماہر نفسیات ہزار، پندرہ سو سے زیادہ نہیں ہے اسی لیے جھگیوں اور گاﺅں کے مکین اپنے مریض جو ذہنی امراض میں مبتلا ہوں انہیں جعلی پیروں اور نیم حکیموں کے پاس جانے پر مجبور ہیں ،اس طرح کے علاج میں کئی مریض اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔پاکستان میں ان پڑھ لوگوں سے بھی زیادہ خطرناک کم پڑے یا نیم خواندہ لوگ ان معمولات میں زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیںکیونکہ اندھوں میں کانے لوگ انتہائی غیر سائنسی مشورہ دیکر انہیں گمراہ کر دیتے ہیں۔جیسے کہ وہ پرانا محاورہ ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ بھی زیادہ معتمند نہیں اور ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کو ڈھونگی اور ڈرامہ کرنے والا تصور کیا جاتا ہے کچھ بظاہر پڑھے لکھے خاندانوں میں پرتشدد راستہ بھی اختیار کیا جاتا ہے جس میں مارپیٹ اور زنجیروں میں باندھنا بھی شامل ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو اہمیت جسمانی امراض کی تشخیص اور علاج کو دی جاتی ہے کم ازکم اس جتنی اگر زیادہ نہیں ،ذہنی امراض کی تشخیص اور علاج پر بھی دی جانی چاہئے۔ماہر نفسیات کے دفتر میں جانا اور اس سے ملنا بھی ایکSTIBMOیا داغدا عمل گردانا جاتا ہے جبکہ مذہب اور ترقی یافتہ ممالک میں پچاس فیصد لوگوں کیSHRINKیا سیاستدان ہونا ایک عام سی بات ہے آج کے نفسا نفسی کے دور میں ہر فرد شدید دباﺅ اور تناﺅ میں رہ رہی ہے ایسے میں اسے کسی ایسے ماہر کی ضرورت ہے جو اسے اپنی ذہنی گھتیوں کو سلجھانے میں اسکی مدد کرے۔ترقی پذیرممالک میں معاشی جدوجہد کا دباﺅ تو ہے ہی لیکن ریاستی جبروتشدد کے علاوہ سماج میں معاشی طور پر کمزور طبقہ وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں اور ملکوں کے ظلم وتشدد کا اگر براہ راست نشان نہیں تو انکے خوف میں ضرور رہتا ہے کمزور اعصاب کے لوگ اکثر خوف میں مبتلا ہوکر بھی ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔جس طرح امریکہ میں سیاہ فام لوگ اکثر پولیس تشدد اور زیادتی کا شکار ہوتے آئے ہیں ان میں ایک اسٹڈی کے مطابق ذہنی امراض کا شکار ہو رہے نشہ کا استعمال بھی زیادہ ہے جس سے سوچ سمجھ کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے جس طرح ناکام ریاستیں اس حالت میں اس وقت پہنچتی ہیں جب انکی ساتھ خراب ہوجاتی ہے ایسی ریاستوں سے سب سے پہلے اپنی ایما کا اعتبار اٹھ جاتا ہے اگر عوام کا یقین اپنے ریاستی نظام سے ختم ہوجائے تو ایسی ریاست تباہی کی طرف تیزی سے روانہ ہوجاتی ہے۔
پاکستان کی صورتحال بھی آجکل اس سے ملتی جلی ہوتی نظر آرہی ہے اپنے ہی شہریوں کا اغوا تشدد اور قتل معاشرے پرتشدد رویے پیدا کر رہی ہے۔غریب اور کمزور دونوں طرف سے پس رہی ہے ایک طرف تھانیدار کی زیادتی تو دوسرے طرف چودھری یا وڈیرے کا ظلم اس گھن کی چکی میں پس پس کر وہ غریب ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی امراض کا شکار نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔آج اس امر کی ضرورت ہے کہ جس طرح انسانی حقوق خواتین کے حقوق اور دوسرے امور پر عوام میں آگاہی پیدا کی جارہی ہے اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل پر بھی عوامی شعور اور آگاہی کی کاوش کو تیز تر کیا جائے۔حکومت میں کئی فضول محکمہ موجود ہیں جس میں سے کئی ایسے بھی ہیں جن کی حقیقتاً کوئی ضرورت نہیں ، ذہنی اور نفسیاتی مسائل سے متعلق ایک ادارہ تشکیل دیا جانا چاہئے جو ان مسائل سے متعلق عوام کو مختلف ذرائع سے آگاہ کرے اور عوام کی رہنمائی کا کام انجام دے تاکہ جعلی پیروں اور حکیموں کے شکنجے سے انہیں بچایا جائے ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ کم ازکم ہائی اسکول کی سطح پر نصاب میں نفسیاتی مسائل کے متعلق مواد کو شامل کیا جائے تاکہ آج کے نوجوانوں میں اپنے متعلق شعور میں اضافہ ہو آج کا انسان شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہے لیکن آنے والے کل میں ہے دباﺅ مزید بڑھتا ہی جائیگا کل کی نئی نسل تک ہے معلومات آج کے نوجوانوں کے ذریعے پہنچ جائے تو بھی غنیمت ہے ،مغرب میں ذہنی اور نفسیاتی امراض پر زور وشور سے تحقیق کی جارہی ہے لیکن پاکستان اور ایسے اور ممالک جہاں پر دوسرے مسائل کا شکار ہے ایسی معلومات کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔