مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
اللہ رب العزت نے ہمیں اشرف المخلوقات قرار دیکر اشرف رہنے کے طریقے بھی ارشاد فرمائے ہیں، اس میں پہلا طریقہ انسان کو چلنے کا بتایا ہے، فرمایا جو رحمن کے بندے ہیں وہ جب زمین پر چلتے ہیں تو اس قدر باوقار چال ہوتی ہے کہ زمین بھی اُن پر ناز کرتی ہے، نہ تو متکبرانہ چال، نہ ہی مریضانہ چال، ایک خوبصورت چال حضرت فاروق اعظمؓ نے ایک نوجوان کو سر پھینک کر چلتے ہوئے دیکھا کیا تم مریض ہو، عرض کی نہیں، مریض نہیں ہوں تو پھر مریض بن کر کیوں چل رہے ہو، چلو سیدھے ہو کر چلو، آپؓ نے فرمایا اگر میں نے دوبارہ اس طرح چلتے ہوئے دیکھا میں تمہیں درے لگاﺅں گا اسی لئے ایک جگہ فرمان نبوی ہے جب نماز کیلئے بھی آﺅ تو بھاگ کر نہ آﺅ بلکہ وقار کےساتھ چل کر آﺅ، اگر جماعت مل گئی تو سبحان اللہ اگر نہ مل سکی تو نماز بعد میں مکمل کر لینا اور دوسری بات جو اشرف رہنے کیلئے خالق کائنات نے ارشاد فرمائی جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اُتر آئے بلکہ در گُزر کر لیتے ہیں، معاف فرما دیتے ہیں سوائے اچھی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے جیسا کہ سرکار دو عالمﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ جُوں جُوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا آپﷺ اتنے ہی نرم ہوتے جاتے، یہی وصف قرآن کریم میں بیان ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے جب مومن لوگ بے ہودہ باتیں سنتے ہیں منہ پھیر لیتے ہیں۔ سرکار دو عالمﷺ کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو بُرا بھلا کہا لیکن اُس نے پلٹ کر جواب دیا تجھ پر سلام ہو سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا تم دونوں کے درمیان فرشتہ موجود تھا وہ تیری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا صرف یہی نہیں بلکہ جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام ہو، تو فرشتہ کہتا تھا اس پر کیوں تجھ پر سلامتی کا پورا حق ہے اور تو اصل حقدار ہے۔ پس مقصود یہ ہے کہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے بُرا کہنے والے کو بُرا نہیں کہتے۔ سوائے بھلے کے اور کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکلتا۔ اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا یہ ہے دوسرا ظلم کرے اور یہ صلح اور برداشت کریں مخلوق خدا کےساتھ دن اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر برداشت کرتے ہیں اور رات اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیں۔ سو میرے عزیز و ہم اگر اپنی ذات کا جائزہ لیں اور دیکھیں ہم کہاں کھڑے ہیں نفس اور شیطان کی کارستانیوں کے آگے ہم ڈھیر ہو جاتے ہیں اور مشہور جملہ ہماری زبانوں سے یہ نکلتا ہے کہ تم مجھے نہیں جانتے میں کون ہوں ہماری قوت برداشت ختم ہو جاتی ہے مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں دعویٰ ہے کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں کہنے اور کرنے میں کتنا فرق ہے اس کا فیصلہ ایک دن ہو جائےگا۔
٭٭٭