رعنا کوثر
ہمارے ہاں روایات اور مذہب سے قربت نے جو مقصد حیات ہمارے بزرگوں کو دیا ہے ،مغربی معاشرے میں اس کا فقدان ہے ،اس لیے ہمارے عمر رسیدہ انسان جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں ، اس کے اندر بردباری، شفقت اور قناعت پسندی بڑھ جاتی ہے اگر کسی چیز کی برائی بار بار آپ کے سامنے کی جائے اور کسی بات کی اچھائی کا ذکر ہوتا رہے تو ایک عمر آنے تک آپ کا جھکاﺅاچھی بات کی طرف ہی جاتا ہے اور آپ کی بڑھتی عمر آپ کو عزت دیتی ہے۔جیسے کے امریکہ کی زندگی کچھ ایسی ہے کے کسی بھی برائی کو برُا سمجھنا منع ہے بلکہ اس کو ذہنی وسعت کا نام دے کر قبول کر لینا پڑتا ہے۔ہمارے معاشرے میں شراب پینا، جوا کھیلنا اور ڈرگ لینا برُا سمجھا جاتا ہے۔اگر کوئی ان چیزوں کا جوانی میں عادی بھی ہو تو جب بزرگی کے رتبے تک پہنچتا ہے تو اپنے جوان ہوتے بچوں کی خاطر اسے برُاسمجھ کر چھوڑ دیتا ہے یا مذہب سے قربت آجاتی ہے تو اسے چھوڑ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے اور شروع سے سنا ہوا ہوتا ہے کہ یہ سب میں جو بھی کروں برُا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ جوانی میں کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے۔دوسری جانب وہ عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں کوئی غلط عادت نہیں ڈالی اور بچوں کی تربیت میں یوں اُلجھے ہوتے ہیں کہ عبادت کا وقت ملتا ہے نہ سوتے ہیں مگر ایسے ہی عمر بڑھتی ہے وہ نماز، روزے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ،اچھی باتیں یاد آتی ہیں۔اچھی کتابیں پڑھتے ہیں اور یوں بڑھتی عمر کے ساتھ چاہے وہ تنہا بھی رہ جائیں ان کے بچے بھی دور چلے گئے ہوں یا اور کوئی مسئلہ ہو وہ برُی عادتوں کو چھوڑ کر اچھی باتوں کی طرف راغب ہوتے جاتے ہیں۔جیسا کے میں نے کہا کہ وہ مغربی معاشرہ دوسری جانب جھکاﺅ پر زور دیتا ہے یہاں اچھے انسان کی قدر ہے نکتہ چینی منع ہے۔مگر آپ برائی کو اس لیے قبول کرتے ہیں کے کسی انسان کی آزادی میں رکاوٹ بننا اس معاشرے کو قبول نہیں ہے۔یوں بہت سارے نقصانات بھی ہیں جس سے یہاں کے عمر رسیدہ افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں وہ بڑھتی عمرکے ساتھ تنہا ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں کوئی ایسا سہارا نہیں ملتا کے وہ اپنا دکھ درد کسی سے کہہ سکیں۔وہ روایات کے پابند نہیں ہوتے وہ مذہب کی طرف بھی راغب نہیں ہوتے ،وہ اُداس اور تنہا ہو کر اپنے پرُانے مشاغل کو اپنا لیتے ہیںاور ایک باعزت ،باوقار عمر رسیدہ آدمی یا عورت کی جگہ ایک ایسا انسان سامنے آتا ہے جوکہ بڑھتی عمر کے ساتھ برائی کی طرف زیادہ راغب ہوجاتا ہے۔جیسا کے آج کل تنہائی زیادہ ہے ،بوڑھے افراد وائرس کی وجہ سے زیادہ ہی تنہا ہوگئے ہیں تو ڈرگ کا استعمال عمر رسیدہ افراد میں بڑھتا جارہا ہے وہ گھر میں بیٹھ کر نشہ کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔حالیہ خبروں میں ان عمر رسیدہ افراد کے بارے میں بتایا گیا ،یہ کیا کریں اکیلے نہ کوئی جاب نہ، کوئی رشتہ دار، نہ آس پڑوس سے دوستی۔اس لیے اپنے آپ کو نشے میں ڈبو رہے ہیں۔ ایک76سالہ فرد کو دکان سے شراب کی بوتل چراتے ہوئے پکڑا گیا ،وہ روز دکان سے ایک مہنگی بوتل چرا کر لے جاتا آخر پکڑا گیا۔بڑھاپے میں برُی عادت کا روگ جوانی میں برُی عادت کے روگ سے زیادہ برُا ہے۔
ایسے میں یہی خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں ستر سال کے بعد اکثر افراد برُی عادتوں سے توبہ کر لیتے ہیں خواتین جائے نماز پر بیٹھ جاتی ہیں ،تسبیح کا ورد کرتی ہیں۔قرآن زیادہ بڑھتی ہیں اور اپنا وقت سکون سے گزارتی ہیں ،مرد حضرات مسجد کا رخ کرتے نظر آتے ہیںیا گھر میں اچھی کتابیں پڑھتے نظر آتے ہیں۔سفید براق پاجامے کرتے پہنتے ہیں یوں ایک اچھے یا برکت بزرگ کا تصور آتا ہے جس کی لوگ عزت کرتے ہیں۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کے کیا وجہ ہے کہ عمر رسیدہ افراد میں نشہ کا رحجان بڑھ رہا ہے جبکے یہاں سینیئر سٹیزن کے لیے بے شمار سہولتیں ہیں،شاہد تنہائی اور بے مقصد زندگی کو وجہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔