علم فلکیات!!!

0
115
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

 

سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام السلام و علیکم امید ہے آپ سب خیریت سے ہونگے اور محرم الحرام کا مہینہ عقیدت و احترام کے ساتھ منارہے ہونگے، اس دفعہ نام تو کالم کا فلکیات سے متعلق ہے لیکن آپ کی توجہ اس کالم کی بابت مملکت پاک کے بڑے شہر کراچی کی طرف دلانا چاہتا ہوں ہر چند کہ مختلف موضوعات پر لکھتا رہا ہوں لیکن میرا شعبہ اور مہارت انجینرنگ ہے اور دلچسپی تعمیرات کے علاوہ شہروں سے متعلق بھی رہی ہے کیونکہ میرے والد صاحب سرکاری ملازم تھے اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کام کرتے تھے کراچی کا پھیلاﺅ ان کے سامنے ہی شروع ہوا اور یہ شہر ایک کنکریٹ کے اژدھام میں بدلتا گیا۔ ماہر تعمیرات اور سوشل ورکر پروین رحمٰن صاحبہ جن کو کراچی میں بے دردی سے قتل کردیا تھا ان کی نظر اس شہر کے طول و عرض پر تھی انکی تعلیم یافتہ فیملی کااثران پر بھی پڑا۔
جہانزیب صاحب نے پروین صاحبہ کی شخصیت پر کافی ریسرچ کی جو درج زیل ہے زمانہ طالبعلمی میں جز وقتی کام کیلئے پروین رحمن کے ساتھ کام کا موقع ملا میں خود اورنگی ٹاﺅن کراچی میں پیدا ہوا اور وہیں پروان چڑھا ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ 22 جنوری 1957 کو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی پروین رحمن صاحبہ بالآخر1971 کو اپنے لٹے پٹے خاندان کے ساتھ کراچی پہنچیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے خاندان نے 1962 میں بہار سے مشرقیپاکستان ہجرت کی تھی مگر حالات کی نزاکت نے انہیں صرف 9 سال بعد دوبارہ ہجرت پر مجبور کردیا۔ محض 15 سے 20 منٹ میں ان کے خاندان کو ڈھاکہ میں گھر خالی کرنے کا آرڈر ملا اور ان کا گھرانہ صرف اپنی جان اور عزت آبروکے ساتھ کراچی پہنچا، کراچی میں کچھ دوسری قسم کی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ بہرحال پروین رحمان کا تعلق کیوں کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اس لئے ان کو فورا ہی سینٹ پیٹرکس اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اسکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعدانہوں نے داو¿د انجینئرنگ کالج سے 1982 میں آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی اور اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے لیے کسی ڈیفنس اور ایلیٹ کلاس کا انتخاب کرنے کے بجائے قائد آباد جیسے پسماندہ ترین علاقے میں دن رات ایک کر کے اپنا فائنل ائیر پروجیکٹ مکمل کیا جس میں بڑی تفصیلات کے ساتھ وہاں موجود شہری اور ترقیاتی مسائل سے لے کر کر ان کے حل تک سیر حاصل مواد بعداکٹھا کر کے اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے طور پر جمع کروا دیا۔ ایک سال بعد ہی 1983 میں اختر حمید خان جو کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر تھے، انہوں نے اس ہیرے کو تلاش کر لیا اوراپنے ساتھ پروین رحمن کو جوائنٹ ڈائریکٹر لگا لیا۔ دو دو ہجرتوں کی تکلیف اور ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ اپنا ہنستا بستا سامان سے سجاخوشیوں سے بھرا گھر چھوڑنے کا دکھ اور تکلیف پروین رحمان کو اورنگی لے آیا۔
اورنگی ٹاو¿ن کراچی کی وہ بستی جہاں سب سے زیادہ مہاجرین آکر آباد ہوئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہاں زیادہ تر دو دفعہ ہجرتکرنے والے آباد ہوئے تو غلط نہ ہوگا۔ پروین رحمان نے زندگی کا مشن بنایا کہ کبھی کسی کوبے چھت اور بےآسرا نہیں ہونےدینا۔ انہوں نے بڑی تحقیق اور محنت کے بعد اورنگی ٹاو¿ن کی گلیوں میں گھنٹوں خوار ہو ہو کر ہر گلی کا نقشہ اپنے ہاتھ سے بنایا اوروہاں کے لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت سیوریج لائن انتہائی سستے طریقوں سے ڈالنا سکھائیں عام آدمی کے ساتھ بیٹھ کر، انکے گھروں میں جاکر ان کی تکلیفوں کو محسوس کرنے کی کوشش کی۔
1986 میں انہوں نے نیدرلینڈ کے انسٹی ٹیوٹ آف ہاو¿سنگ اسٹڈیز سے ہاو¿س بلڈنگ اور اربن پلاننگ میں اپنا پوسٹ گریجویٹ مکملکیا۔ آپ ذرا پہلے کے لوگوں کا اخلاص ملاحظہ کریں کہ انتہائی ماڈریٹ گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی جو دنیا کی چکاچوند دیکھ چکی ہو مگر پھر بھی کراچی کے پسماندہ ترین علاقے میں رہ کر ان کی مدد کر رہی ہو اور چاہتی ہوں کہ کسی طرح اورنگی ٹاو¿ن کے لوگ ترقی کر جائیں۔
1986 کے بعد کراچی اور بالخصوص اورنگی کے حالات بد سے بدتر ہونا شروع ہو گئے مگر ان حالات میں بھی وہ خاتون روز اپنے دفتر جاتی، کبھی محلے کے معززین کے ساتھ میٹنگ کرکے انہیں سمجھاتی اور کبھی علاقہ مکینوں کو احساس دلاتی کہ انتہائی پسماندہ زندگی یقینا آپ کی منتظر نہیں ہے۔
پروین رحمان کی ریسرچ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد اور خصوصا 1971 کی ہجرت کے بعد کراچی میں کسی بھی قسم کی کوئیترتیب اور پلاننگ نہیں کی گئی حتی کہ 2010 تک بھی کراچی اور حیدر آباد میں چار لاکھ سے زیادہ گھر بنانے کی گنجائش موجود تھی اور اگرحکومت ذرا سی سہولت فراہم کرتی تو لوگ بڑی تعداد میں کچی بستیاں بنانے کے بجائے وہاں آباد ہو جاتے۔ مثال کے طور پر لائنزایریا برطانوی فوجوں کی بیرکوں کی جگہ تھی اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا مگر وہاں بغیر کسی پلاننگ کے بس لوگوں کو ان کے حال پربسنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اس طرح لائنز ایریا کی کچی آبادی وجود میں آ گئی اور اسی طرح ہر جگہ پورے شہر میں کچی آبادیاں بنتیچلی گئیں۔
پروین رحمان کی تحقیقات کا دائرہ سیوریج لائن تک وسیع ہو گیا وہ پورے کراچی میں گھومتی رہیں اور دیکھتی رہی تھی آخر یہ نالے کہاگرتے ہیں اور کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور ان کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ انہوں نے کراچی سے نکلنے والے تمام نالوں کیانتہا اور ابتدا معلوم کی تو وہ مزید حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگیں کہ کراچی میں تو نالے “پلاٹوں” کی طرح بک رہے تھے بلکہ نالوں کی خرید و فروخت سرکاری سطح پر جاری تھی۔
سیوریج نالوں سے شروع ہونے والی یہ تحقیق انہیں کراچی میں پانی کی عدم فراہمی کی تحقیق پر لے آئی اور پروین رحمان نے بنفس نفیس جا کر دریائے سندھ اور حب ڈیم سے لے کر گھارو، پیپری اور مزید نچلے علاقوں میں جاکر تحقیقات کی تو ان پر حیرت کے مزیدسمندر وا ہوتے چلے گئے اور انہیں معلوم ہوا کہ :
دیکھا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
جو اس شہر کے حقوق کے نام پر ووٹ لے رہے تھے دراصل وہی تو اس شہر کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے تھے تھے، جن کو اپنا”محافظ” سمجھا جا رہا تھا وہ تو خود جگہ جگہ واٹر ہائیڈرنٹس بنا رہے تھے، نالوں پر قبضہ کرکے حسین خوبصورت بستیاں آباد کر رہے تھے حتیٰ کہ وہ کراچی کے نکاسی کے عین منہ پر ایک ایسا خوش نما داغ لگا رہے تھے جو بظاہر بڑا حسین معلوم ہوتا تھا۔
جو لوگ دے رہے ہیں تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاو¿ گے
آج سے دس سال پہلے انہوں نے تمام ثبوت اور شواہد کے ساتھ بتا دیا تھا کہ جس دن بھی کراچی میں ایک حد سے زیادہ بارش ہوئی ،اس دن کراچی کے مضافات اور کراچی کے اشرافیہ ایک جیسی مصیبت کا شکار ہوجائیں گے۔
٭٭٭
علم فلکیات!!!

سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام السلام و علیکم امید ہے آپ سب خیریت سے ہونگے اور محرم الحرام کا مہینہ عقیدت و احترام کے ساتھ منارہے ہونگے، اس دفعہ نام تو کالم کا فلکیات سے متعلق ہے لیکن آپ کی توجہ اس کالم کی بابت مملکت پاک کے بڑے شہر کراچی کی طرف دلانا چاہتا ہوں ہر چند کہ مختلف موضوعات پر لکھتا رہا ہوں لیکن میرا شعبہ اور مہارت انجینرنگ ہے اور دلچسپی تعمیرات کے علاوہ شہروں سے متعلق بھی رہی ہے کیونکہ میرے والد صاحب سرکاری ملازم تھے اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کام کرتے تھے کراچی کا پھیلاﺅ ان کے سامنے ہی شروع ہوا اور یہ شہر ایک کنکریٹ کے اژدھام میں بدلتا گیا۔ ماہر تعمیرات اور سوشل ورکر پروین رحمٰن صاحبہ جن کو کراچی میں بے دردی سے قتل کردیا تھا ان کی نظر اس شہر کے طول و عرض پر تھی انکی تعلیم یافتہ فیملی کااثران پر بھی پڑا۔
جہانزیب صاحب نے پروین صاحبہ کی شخصیت پر کافی ریسرچ کی جو درج زیل ہے زمانہ طالبعلمی میں جز وقتی کام کیلئے پروین رحمن کے ساتھ کام کا موقع ملا میں خود اورنگی ٹاﺅن کراچی میں پیدا ہوا اور وہیں پروان چڑھا ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ 22 جنوری 1957 کو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی پروین رحمن صاحبہ بالآخر1971 کو اپنے لٹے پٹے خاندان کے ساتھ کراچی پہنچیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے خاندان نے 1962 میں بہار سے مشرقیپاکستان ہجرت کی تھی مگر حالات کی نزاکت نے انہیں صرف 9 سال بعد دوبارہ ہجرت پر مجبور کردیا۔ محض 15 سے 20 منٹ میں ان کے خاندان کو ڈھاکہ میں گھر خالی کرنے کا آرڈر ملا اور ان کا گھرانہ صرف اپنی جان اور عزت آبروکے ساتھ کراچی پہنچا، کراچی میں کچھ دوسری قسم کی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ بہرحال پروین رحمان کا تعلق کیوں کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اس لئے ان کو فورا ہی سینٹ پیٹرکس اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اسکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعدانہوں نے داو¿د انجینئرنگ کالج سے 1982 میں آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی اور اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے لیے کسی ڈیفنس اور ایلیٹ کلاس کا انتخاب کرنے کے بجائے قائد آباد جیسے پسماندہ ترین علاقے میں دن رات ایک کر کے اپنا فائنل ائیر پروجیکٹ مکمل کیا جس میں بڑی تفصیلات کے ساتھ وہاں موجود شہری اور ترقیاتی مسائل سے لے کر کر ان کے حل تک سیر حاصل مواد بعداکٹھا کر کے اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے طور پر جمع کروا دیا۔ ایک سال بعد ہی 1983 میں اختر حمید خان جو کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر تھے، انہوں نے اس ہیرے کو تلاش کر لیا اوراپنے ساتھ پروین رحمن کو جوائنٹ ڈائریکٹر لگا لیا۔ دو دو ہجرتوں کی تکلیف اور ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ اپنا ہنستا بستا سامان سے سجاخوشیوں سے بھرا گھر چھوڑنے کا دکھ اور تکلیف پروین رحمان کو اورنگی لے آیا۔
اورنگی ٹاو¿ن کراچی کی وہ بستی جہاں سب سے زیادہ مہاجرین آکر آباد ہوئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہاں زیادہ تر دو دفعہ ہجرتکرنے والے آباد ہوئے تو غلط نہ ہوگا۔ پروین رحمان نے زندگی کا مشن بنایا کہ کبھی کسی کوبے چھت اور بےآسرا نہیں ہونےدینا۔ انہوں نے بڑی تحقیق اور محنت کے بعد اورنگی ٹاو¿ن کی گلیوں میں گھنٹوں خوار ہو ہو کر ہر گلی کا نقشہ اپنے ہاتھ سے بنایا اوروہاں کے لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت سیوریج لائن انتہائی سستے طریقوں سے ڈالنا سکھائیں عام آدمی کے ساتھ بیٹھ کر، انکے گھروں میں جاکر ان کی تکلیفوں کو محسوس کرنے کی کوشش کی۔
1986 میں انہوں نے نیدرلینڈ کے انسٹی ٹیوٹ آف ہاو¿سنگ اسٹڈیز سے ہاو¿س بلڈنگ اور اربن پلاننگ میں اپنا پوسٹ گریجویٹ مکملکیا۔ آپ ذرا پہلے کے لوگوں کا اخلاص ملاحظہ کریں کہ انتہائی ماڈریٹ گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی جو دنیا کی چکاچوند دیکھ چکی ہو مگر پھر بھی کراچی کے پسماندہ ترین علاقے میں رہ کر ان کی مدد کر رہی ہو اور چاہتی ہوں کہ کسی طرح اورنگی ٹاو¿ن کے لوگ ترقی کر جائیں۔
1986 کے بعد کراچی اور بالخصوص اورنگی کے حالات بد سے بدتر ہونا شروع ہو گئے مگر ان حالات میں بھی وہ خاتون روز اپنے دفتر جاتی، کبھی محلے کے معززین کے ساتھ میٹنگ کرکے انہیں سمجھاتی اور کبھی علاقہ مکینوں کو احساس دلاتی کہ انتہائی پسماندہ زندگی یقینا آپ کی منتظر نہیں ہے۔
پروین رحمان کی ریسرچ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد اور خصوصا 1971 کی ہجرت کے بعد کراچی میں کسی بھی قسم کی کوئیترتیب اور پلاننگ نہیں کی گئی حتی کہ 2010 تک بھی کراچی اور حیدر آباد میں چار لاکھ سے زیادہ گھر بنانے کی گنجائش موجود تھی اور اگرحکومت ذرا سی سہولت فراہم کرتی تو لوگ بڑی تعداد میں کچی بستیاں بنانے کے بجائے وہاں آباد ہو جاتے۔ مثال کے طور پر لائنزایریا برطانوی فوجوں کی بیرکوں کی جگہ تھی اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا مگر وہاں بغیر کسی پلاننگ کے بس لوگوں کو ان کے حال پربسنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اس طرح لائنز ایریا کی کچی آبادی وجود میں آ گئی اور اسی طرح ہر جگہ پورے شہر میں کچی آبادیاں بنتیچلی گئیں۔
پروین رحمان کی تحقیقات کا دائرہ سیوریج لائن تک وسیع ہو گیا وہ پورے کراچی میں گھومتی رہیں اور دیکھتی رہی تھی آخر یہ نالے کہاگرتے ہیں اور کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور ان کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ انہوں نے کراچی سے نکلنے والے تمام نالوں کیانتہا اور ابتدا معلوم کی تو وہ مزید حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگیں کہ کراچی میں تو نالے “پلاٹوں” کی طرح بک رہے تھے بلکہ نالوں کی خرید و فروخت سرکاری سطح پر جاری تھی۔
سیوریج نالوں سے شروع ہونے والی یہ تحقیق انہیں کراچی میں پانی کی عدم فراہمی کی تحقیق پر لے آئی اور پروین رحمان نے بنفس نفیس جا کر دریائے سندھ اور حب ڈیم سے لے کر گھارو، پیپری اور مزید نچلے علاقوں میں جاکر تحقیقات کی تو ان پر حیرت کے مزیدسمندر وا ہوتے چلے گئے اور انہیں معلوم ہوا کہ :
دیکھا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
جو اس شہر کے حقوق کے نام پر ووٹ لے رہے تھے دراصل وہی تو اس شہر کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے تھے تھے، جن کو اپنا”محافظ” سمجھا جا رہا تھا وہ تو خود جگہ جگہ واٹر ہائیڈرنٹس بنا رہے تھے، نالوں پر قبضہ کرکے حسین خوبصورت بستیاں آباد کر رہے تھے حتیٰ کہ وہ کراچی کے نکاسی کے عین منہ پر ایک ایسا خوش نما داغ لگا رہے تھے جو بظاہر بڑا حسین معلوم ہوتا تھا۔
جو لوگ دے رہے ہیں تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاو¿ گے
آج سے دس سال پہلے انہوں نے تمام ثبوت اور شواہد کے ساتھ بتا دیا تھا کہ جس دن بھی کراچی میں ایک حد سے زیادہ بارش ہوئی ،اس دن کراچی کے مضافات اور کراچی کے اشرافیہ ایک جیسی مصیبت کا شکار ہوجائیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here