امریکا میں منفی سوچ کے افراد!!!

0
584
حیدر علی
حیدر علی

 

حیدر علی

جب میں پاکستان میں رہتا تھا یا جب میں شروع شروع امریکا آیا تو اِس خیال کا حامل تھا کہ امریکا میں منفی سوچ کے افراد پاکستان سے مقابلتا”کم ہیں لیکن رفتہ رفتہ یہ حقیقت مجھ پر عیاں ہونے لگی کہ دراصل امریکا میں منفی سوچ کے افراد پاکستان سے دس گنا زیادہ ہیں، مثلا”جب میں گذشتہ سال نیاگرا فالز تفریح کے غرض سے گیا تو میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی کیونکہ جس حالت میں میں نے اُسے دس سال قبل دیکھا تھا آج بھی وہ ویسے کا ویسا ہی ہے، نہ ہی وہاں کوئی فلک بوس عمارت بنی ہے اور نہ ہی کوئی شاپنگ مال ، یہ میں اُس شہر کی بات کر رہا ہوں جہاں لاکھوں لاکھ لوگ ساری دنیا سے تفریح کیلئے جاتے ہیں، جب میں نے وہاں کے ایک باسی سے اِس کی وجہ دریافت کی تو اُس بیچارے نے مایوسی کی کیفیت میں کہا کہ یہاں کے لوگ انتہائی وقیانوس ہیں ، یعنی منفی سوچ کا شکار ہیں، وہ تعمیر کے کسی بھی پلان کو مسترد کر دیتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ اِس سے اُن کی داخلی زندگی میں خلل آجائیگااور اُن کی پُر امن زندگی معدوم ہوجائیگی، اِسی وجہ کر پورے شہر بفیلو میں بے روزگاری کا دور دورہ ہے، اور لوگ مجبور ہو کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیںیہی کچھ صورتحال مین سٹیٹ کی بھی دیکھی ، جہاں میں ما¶نٹ کیتھیڈین کے پانچ ہزار دوفٹ کی بلندی پر ہائیکنگ کیلئے مع فیملی کے گیا تھا،وہاں بھی میں نے صرف قطار در قطار بوسیدہ قسم کے مکانات ہی دیکھے ، نہ کوئی ڈیپارٹمنٹل سٹور نہ ہا¶سنگ کمپلکس میں نے اُس چھوٹے سے ٹا¶ن کی حالت دیکھ کر بات یوں ہضم کر لی کہ چلو لوگ یہاں صرف ہائیکنگ کیلئے آتے ہیں لیکن رات میں میری گفتگو ہوٹل کے مالک سے تفصیل سے ہوئی جو اپنے ہوٹل کو جلد از جلد فروخت کرنے کیلئے بے چین تھا، اُس بیچارے نے بھی مجھے یہ بتایا کہ مین سٹیٹ کے لوگ انتہائی وقیانوس اور منفی سوچ کے مالک ہیں، اُسکا کہنا تھا کہ ما¶نٹ کیتھیڈین کے قریب ایک سرمایہ کار ایمیوزمنٹ پارک بنانے کا خواہشمند تھا، لیکن مقامی لوگوں نے اِس بات کی اجازت نہیں دی ، کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ اِس کی وجہ کر بہت سارے دوسرے علاقے کے لوگ وہاں جاکر آباد ہوجائینگے اور اُن کی طرز زندگی پر حرف آجائیگا،دوسرے علاقے کے لوگوں کا مطلب سیاہ فام ہی مقصود ہوتا ہے،اب آپ نیویارک سٹی کے اسکولوں کے کھولنے کی مثال لیجئے یہاں کا ہر باسی اسکولوں کے کھولنے پر تحفظات کا شکارہے، ایک جانب اساتذہ کی چیدہ چیدہ یونین اسکولوں کے کھولنے کی نا تنسخ شرائط در شرائط پیش کر رہی ہیںاور دوسری جانب ہر شخص چاہے اُسکا تعلق کسی بھی لحاظ سے اسکول سے ہو یا نہ ہو اِس کے کھولنے میں اپنی ٹانگ اڑانے کی بازی لگا دی ہے، اِن حالات میں اگر آسمان سے چاند تارے بھی توڑ کر اسکولوں پر لگا دئیے جائیں تو بھی یہ حضرات اِسکے کھولنے پر آمادہ نہیں ہونگے۔
اساتذہ کی ایک یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ اسکول ستمبر 2020 کے بجائے ستمبر 2021 میں کھولا جائے کیونکہ تا ہنوز اساتذہ کی اکثریت کورونا وائرس سے خوفزدہ ہے، وہ اسکول کے ہر طلبا کو کورونا کا ایک وائرس سمجھتے ہیں جو کسی بھی وقت اُنہیں اپنے نرغے میں لے کر ایمرجنسی وارڈپہنچا سکتا ہے،اساتذہ کی دوسری یونین کا مطالبہ ہے کہ اسکول کھولنے سے قبل ہر ٹیچر کو دس دس ہزار ڈالر بونس دئیے جائیںتاکہ کوئی ٹیچر کورونا وائرس کا شکار ہوکر داغ مفارقت دے جائے تو اُسکے اہل و عیال کیلئے کچھ سہارا ہو۔ اساتذہ کی تیسری یونین کا کہنا ہے کہ گھر بیٹھے بیٹھے اور مفت کی تنخواہ لیتے لیتے ٹیچرز کی اکثریت کاہل ہوگئی ہے، اِسلئے ابتدا میں اسکول رفتہ رفتہ کھولا جائے ، یعنی کلاسیز صرف دوگھنٹے کیلئے ہوں، اور پھر بتدریج اِسے بڑھایا جائے۔اساتذہ کی چوتھی یونین کا کہنا ہے کہ ایس او پی جو اُس نے تحریر کیا ہے اُس میں احتیاطی تدابیر کے سارے لوازمات موجود ہیںاور اِس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ طلباکے یونیفارم کیسے ہوں اور اساتذہ کے کیسے؟ اُنہیں اسکول لانے کیلئے بس کا انتظام کیا جائے یا ہیلی کاپٹر کا، قطع نظر ٹیچرز کی یونین کے اسکول کے پرنسپلز کی یونین بھی کسی سے پیچھے نہیں، اُس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسکول کھولنے کے تمام امور کے بارے میں صرف اُنکی مشاورت پر عمل کیا جائے، ورنہ وہ بھی لال جھنڈی دکھانا شروع کر دینگے۔ معلوم ہوا ہے کہ پرنسپلز کی یونین نے مشورہ دیا ہے کہ جب طلبا موسم گرما کی چھٹی کے بعد اسکول تشریف لائیں تو اُن کی تواضع صرف ایسے کھانوں سے کی جائے جو کورونا وائرس کے مرض کا خاتمہ کرسکے، اُنہوں نے مثال دی کہ صبح صبح جیسے ہی طلبا اسکول میں داخل ہوں اُنہیں گرما گرم کشمیری چائے پیش کی جائے اور پھر ناشتہ میں انڈا آملیٹ اور پراٹھے سے خاطر مدارت کی جائے۔ لنچ میں اُن کی تواضع کیلئے مصالحہ دار چکن بریانی ہو،پرنسپلز یونین کے ترجمان نے کہا کہ اِس طرح کی نیوٹریشن سے بھر مار کھانا کھانے سے طلبا چاق و چوبند رہینگے اور کوئی بھی وائرس اُن کے قریب نہ آسکے گا۔
اسکول کے بھنگیوں کی انجمن نے بھی اِس ضمن میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں، اُنہوں نے کہا کہ اسکول کی انتظامیہ ہمیشہ اُن کی حفاظت کو نظر انداز کیا ہے، کیونکہ وہ بھنگی ہیںلیکن اِس مرتبہ وہ اِسے برداشت نہیں کرینگے، اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر اسکول کی صفائی کیلئے کم از کم ایک سو نئے ملازم بھرتی کئے جائیں، ہر ملازم وائرس پروف یونیفارم سے مرصع ہو ، صفائی کرنے والے ہر ملازم کے گھر میں ایک قرنطینہ بنایا جائے تاکہ جب وہ گھر واپس آیا کریں تو اُس میں بود و باش اختیار کریں، دیکھنا یہ ہے کہ اِن خوابوں کی دنیامیں رہنے والے افراد کی موجودگی میں آیا اسکول کھل سکتا ہے یا نہیں؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here