حیدر علی
با لآخر میں نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ اگرلوگ مجھے بھی غدار قرار دے دیں تو مجھے اِس کے فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہونگے، لہٰذا جس کام میں نقصانات کم اور فوائد زیادہ ہوتے ہیں میں اُسے منطقی انجام تک پہنچانے میں کسی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرتا،میں نے فورا” ایک طویل بیان تحریر کر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کے چینلوں میں روانہ کردیا بیان کا لب و لباب یہ تھا کہ چونکہ میرے پڑوسی نے آج سے دو سال قبل مجھ سے چار سو روپے قرض لئے تھے لیکن وہ آج تک اُسے واپس کرنے کی زحمت نہ کرسکے، پاکستان میں یہ ایک وبا بن گئی ہے کہ لوگ قرض لے کر رقم واپس نہیں کرتے اگر اِس ضمن میں لوگوں سے استفسار کیا جائے تو ہر ایک کا جواب یہی ہوگا کہ ”یس می ٹو“ تو بابا قرض لے کر رقم واپس کیوں نہیں کرتے اگر قرض لے کر واپس نہ کرنے والی رقم کا تخمینہ کیا جائے تو یہ ٹریلین روپے کے قریب پہنچ جائے گی اور جس سے پاکستان کا بیرونی ممالک سے لیا ہوا سارا قرض اُتر جائیگا۔ میں نے اپنے بیان کے آخری پیراگراف میں یہ اعلان کیا کہ میں پاکستانیوں کی اِس لچھن کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہوں اور میں ببانگ دہل خود کو غدار نمبر ون قرار دیتا ہوں،بہرکیف بیان اخبار کے دفاتر پہنچتے ہی وہاں کے مدیران اعلی کا فون آنا شروع ہوگیا جو مدیر اعلی پہلے مجھے” تم “کہہ کر مخاطب ہوتے تھے اب وہ مجھے” آپ “کہنے لگے،اخبارات کے بیچارے سارے مدیر ان اعلی مجھے یہ مشورہ دینے لگے کہ میں اپنا بیان واپس لے لوں کیونکہ اِس کے شائع ہوتے ہی سارے ملک میں ایک ہیجان پیدا ہو جائیگا، وزیراعظم پاکستان کو کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلانا پڑیگا۔ آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور نیب والے مجھے ڈھونڈنا شروع کر دینگے، اخبارات میں میری تصویر شائع ہونا شروع ہوجائیگی، جس کے ساتھ یہ سرخی ہوگی کہ ” کیا آپ اِس غدار کو جانتے ہیں؟“لیکن میں اپنے انجام سے واقف تھا ، اِسلئے میں نے صریحا”انکار کردیا شام کو جیو چینل کے ایک سینئر اینکر پرسن سے مجھے ایک کال موصول ہوئی۔ اُنہوں نے مجھے اپنے سٹوڈیو آنے کی دعوت دی تاکہ وہ میری انٹرویو لے سکیں، اُنہوں نے مجھے اِس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اُن کی لیموزین مجھے گھر سے پِک اپ کرلے گی اور پھر گھر واپس پہنچادے گی، میں نے یہ سوچ کر اُن کی دعوت قبول کرلی کہ واپسی میں سبزی منڈی سے سبزی بھی خرید لونگا، میں جیسے ہی سٹوڈیو پہنچا تو اُنہوں نے میرا انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ” میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ کا نام ملک کے چنندہ چنندہ غداروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ آپ کو یہ علم ہوگا ہ سر فہرست پاکستان کے دومرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ہیں، اُس کے بعد اُن کی بیٹی اور پھر اُن کے صاحبزادے اُن کے بھائی ، اُن کے بھائی کے بیٹے اور آخر میں اُنکا باورچی بھی شامل ہے،“ مجھے یہ حیرانگی ہوئی کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا باورچی غداروںکی فہرست میں کس طرح شامل ہوگیا ہے۔ میں نے فورا”اِس کی وجہ دریافت کی، اُنہوں نے مجھے بتایا کہ چونکہ وزیراعظم کے باورچی نے ایک مرتبہ چکن قورمہ بناتے وقت چکن کی کھال کو نہیں اُتارا تھا اور اُس نے وہی قورمہ سابق وزیراعظم کے گھر آئے ہوئے مہمان ڈی آئی جی کو کھلا دیا تھا۔ ڈی آئی جی تو اُس وقت خاموش رہے لیکن اُنہوں نے یہ بات نوٹ کر لی کہ چکن کی کھال کو اُتارے بغیر کسی کو کھلانا ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اِس کے کھانے والے کا وزن اور اور اُس کے جسم میں چربی کے بڑھ جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، اینکر پرسن نے مجھے بتایا کہ اُن کی بھی بھاری رقم قرض داروں کے ہاتھوں پھنسی ہوئی ہے اور وہ ہر ماہ ، آئندہ ماہ واپس کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، اینکر پرسن نے مجھے کہا کہ میں نے ایک لائق اقدام اٹھایا ہے اور میں روزانہ اُن کے چینل پر آکر اپنے خیالات کا اظہار کیا کروں۔ اُنہوں نے میری ملاقات اپنے چینل کی تمام خواتین عملے سے کرائی ، اُن تمام دلربا حسینوں سے ملکر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں ملک کا وزیراعظم ہوں، میں نے دِل میں سوچا کہ اتنی ساری عزت، اتنی ساری رفاقت صرف غدار کا ٹائیٹل حاصل کرنے کی وجہ کر مل جاتی ہے ، تو ایک مرتبہ کیا دومرتبہ میں خود کو غدار کہہ سکتا ہوں،نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاںچلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے – جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے -نظر چُرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے فیض احمد فیص کی مذکورہ شاعری آج جس طرح نئے پاکستان کی ترجمانی کر رہی ہے شاید ہی ماضی کے کسی ادوار میں کیا ہو۔ہر وہ شخص جو حکومت پر تنقید کررہا ہے بلا تامل غدار قرار دیا جارہا ہے، اُف کرنے والے بھی اور واہ کرنے والے بھی بلا تفریق غدار قرار پارہے ہیں، اِسلئے غدار اب کوئی معیوب لفظ نہ رہا ہے، یہ ایک ایسا ہی لفظ بن گیا ہے جیسا کہ سعودی عرب حج یا عمرہ کیلئے جانے والوں کو وہاں کے حکام حاجی کہہ کر پکارتے ہیں۔ پاکستان میںیہ لفظ اب تکیہ کلام بن گیا ہے، لوگ ٹیکسی والے کو ” ابے اوہ غدار ٹیکسی والے “ کہہ کر پکارنے لگے ہیں۔ ٹیکسی والا بھی یہ جواب دینے پر مجبور ہے کہ ” ہاں غدار صاحب صدر جاو¿نگا ، پانچ سو روپے لونگا، ٹریفک بہت زیادہ ہے، بہت سارے غدار گاڑی چلا رہے ہیں، لہٰذا اگر آپ کسی کام کیلئے نکلیں اور کوئی آپ کو یہ کہہ کر مخاطب کرے کہ ” ہاں غدار جی آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں “ توآپ ناراض نہ ہوں کیونکہ یہ انداز گفتگو نئے پاکستان کا طرہ امتیاز ہے۔©