خدارا مملکت پاکستان کو مذہبی بنیادوں پر علیحدہ نہ کرو؟

0
163
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

لگتا ہے کہ کراچی کو پھر تختہ¿ دار بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، پھر سے تعصب کی آگ کو ہوا دی جا رہی ہے، پہلے زبان کی بنیاد پر لڑوایا گیا پھر علاقائیت کی بنیاد پر جب ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو مذہبی تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے۔ مذہبی جلوسوں کی شکل میں چند ایسے عناصر جو یقیناً کسی کے آلہ¿ کار ہیں وہ یہ نفرتیں پھیلا رہے ہیں کیونکہ مذہب ہی ایسا ہتھیار ہے جسے سے آسانی سے کھیلا جا سکتا ہے، جس طرح محرم کے جلوس میں صحابہ کرامؓ کےخلاف چند شرپسندوں نے چاہے وہ کوئی امام ہی کیوں نہ ہو ایسی حرکت کرتا ہے تو وہ واقعی قابل مذمت ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں کے لوگ ایسے ذاکروں اور خطیبوں کی واہ واہ کرتے ہیں جو ایکد وسرے کےخلاف تقاریر کرتے ہیں اور آگ بھڑکاتے ہیں ایسے لوگوں کو تو فوراً منع کر دینا چاہیے کہ آپ تعصب نہ پھیلائیں اس کے بعد علماءاہلسنت کی طرف سے جلوس نکالا گیا اور وہاں بھی وہی حرکت ہوئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی کیونکہ ہم لوگ مذہبی جنون میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ یقیناً اس کے پیچھے وہی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں امن و امان قائم نہ ہو اور دشمن اس سے فائدہ اُٹھاتا رہے۔
لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وہاں جو بڑے بڑے مفتیان اور علماءموجود تھے انہوں نے اس نعرے لگانے والے کو روکا نہیں جو امیر یزید زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا جس نے پوری اُمت مسلمہ کو شرمسار کر دیا مجھے تو لکھتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ جس کو ہمارے اسلاف نے متفقہ طور پر لعنت کی ہو اس کو زندہ باد کہا جائے غلطی دونوں طرف کی ہے، دونوں کو ایک دوسرے کے اسلاف کی عزت کرنی چاہیے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو آپ کو جس عقیدے پر چلنا ہے آپ چلیں اپنے گھروں میں جو چاہے کریں لیکن کسی مجمع میں، کسی جلوس میں ایسی باتیں نہ کریں جس سے نفرتیں پیدا ہون، ویسے تو ہماری سیاسی جماعتیں بھی کسی طرح پیچھے نہیں ہیں اور وہ بھی ان واقعات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ملک میں انتشار پھیلانے میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ان کو بھی اپنے لیڈروں کا انجام سامنے نظر آرہا ہے سب اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں کیا جمہوریت اسی کو کہتے ہیں کیا ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں جس طرح مولانا عادل کا سفاکانہ قتل ہوا ان کا کیا قصور تھا یہ بہت بڑی سازش ہے اور آج تک جتنے بھی علماءکرام چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ ہوں جو قتل ہو چکے ہیں کیا آج تک ان کے قاتلوں کو گرفتار کیا گیا، قاتل تو قتل کر کے نکل جاتا ہے اس کو گرفتار نہیں کیا جاتا وہ تو اپنا مشن پورا کر لیتا ہے اور ہماری پولیس دیکھتی رہ جاتی ہے اب مذہبی جماعتوں نے بھی پہیہ جام ہڑتال کی دھمکی دےدی ہے اور پاکستان کا وہ شہر جو پورے پاکستان کو پال رہا ہے وہاں پھر یہی ہڑتالوں اور جلوسوں میں تمام کاروبار بند ہونے جا رہے ہیں ابھی لوگوں کی جان کورونا سے نہیں چُھوٹی ہے کہ اب یہ نیا کام شروع ہو رہا ہے۔ سب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اپنے مدرسوں کے بچوں کو میدان میں لانے کی بات کر رہے ہیں سب مل کر پاکستان کو برباد و تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اگر اب بھی سخت اقدامات نہ کئے گئے اور ایسے قوانین پاس نہ کئے گئے جس میں کسی کو کسی کے مذہب کی دلا ٓزاری کی اجازت نہ ہو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں تاکہ اس مذہب کے کارڈ کو استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو ایسا ہی اتفاق ہونا چاہیے جس طرح چہلم کے جلوس میں اتنی بڑی تعداد اس سے پہلے شریک نہیں ہوئی جس کیو جہ اس جلوس میں جماعت اہلسنت کے لوگوں کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کر کے ایک بہت بڑے خون خراب سے بچا لیا اور محبت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے شرکت کی۔ مولانا عادل شہید کی شہادت کو بہانہ نہ بنایا جائے ان کے قاتل کو جلد گرفتار کر کے اس سازش سے نقاب اٹھانا پڑے گا جو ہم مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے کی کوشش کی جا رہی ہے جب بھی کسی ملک میں تباہی پھیلانی ہوتی ہے وہاں مذہب کے نام پر لڑوایا جاتا ہے ہمارے دونوں طرف کے علماءاکرام کو ساتھ بیٹھ کر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ کسی مذہب کے اکابرین کو بُرا نہیں کہا جائےگا ان کا احترام کرنا ہوگا ورنہ ہماری حکومت کو سخت اقدام کرنے ہونگے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here