نیویارک (پاکستان نیوز) انتخابات قریب آتے ہی سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں ، ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ، اس دوران ضائع شدہ ووٹوں کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ہر انتخابات کے دوران سینکڑوں لوگوں کے بیلٹ تکنیکی وجوہات کی بنا کر مسترد کر دیئے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کی تعداد ریکارڈ رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے ، میڈیا آرگنائزیشنز پیٹ بیل ، یو ایس اے ٹو ڈے ، کیتھرائن فیلکی ، جیکی ہیڈنبرگ ، الزبتھ مولووی ،عاصم شکلا ، کولمبیا جرنلزم انویستی گیشن ، دی لیڈر اور مجیب لودھی کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ اس مرتبہ انتخابات کے دوران مسترد کیے گئے بیلٹس کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جوکہ انتخابات پر براہ راست اثر انداز ہوگی ، گزشتہ انتخابات میں بھی مسترد شدہ ووٹوں کی بھاری تعداد سامنے آتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ یہ تعداد تاریخی بتائی جا رہی ہے ، 2012 میں 546 بیلٹس کو دستخط نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کیا گیا ، اسی طرح 2018 کے دوران ورجینیا میں 216بیلٹس کو غیر تصدیق شدہ انویلپس میں ہونے کی وجہ سے مسترد کیا گیا اور ایری زونا میں 1516 بیلٹس کو دستخط نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کیا گیا لیکن موجودہ الیکشن میں مسترد ہونے والے بیلٹس کی تعداد تاریخی رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے ، موجودہ انتخابات کے دوران 13لاکھ سے زائد بیلٹس کو مسترد کیے جانے کا امکان ہے جوکہ مجموعی ووٹنگ کا 75فیصد بتایا جا رہا ہے ، صرف فلوریڈا میں 1لاکھ 85ہزار بیلٹس مسترد ہو سکتے ہیں ، شمالی کیرولینا ، پنسلووینیا ، ونسکانسن سمیت دیگر ریاستوں میں بھی بھاری تعداد میں بیلٹس مسترد کیے جانے کا امکان ہے ، سی جے آئی کے مطابق صرف تین ریاستوں میں 44ہزار سے 66 ہزار ووٹوں کو مسترد کیا جا سکتا ہے ، واضح رہے کہ دنیا کی سیاسی صورتحال میں امریکہ کا کردار ہمیشہ سے کلیدی رہا ہے اور موجودہ حالات میں سب کی نظریں دنیا کی سپر پاور کی سپر پاور شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ پر ہے جنھوں نے کمال مہارت اور چالاکی سے اپنے ایجنڈے کو عملی جامعہ پہنایا ہے اور ان کو اقتدار میں لانے والی مخصوص لابی ان کی کارکردگی سے کافی متاثر ہے،ٹرمپ کی سفید فام امریکیوں کی حمایت ، سیاہ فام افراد کے خلاف نسل پرستانہ جملے ، کورونا کا مذاق اڑانا سب ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا لیکن دنیا سمیت امریکیوں کی اکثریت اس کو ٹرمپ کا ذاتی فعل سمجھتی رہی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا ، ٹرمپ کا ہر بیان اور اقدام ان کی مخصوص لابی کا فراہم کردہ ایجنڈا تھا جس کو انھوں نے عملی جامع پہنایا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکہ کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے ، وہ ساری باتیں جو پہلے ڈھکے چھپے الفاظ میں کی جاتی تھیں کہ امریکا کی مسلمانوں کے بارے پالیسی کیا ہے؟ فلسطین کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟ چین کے بارے میں امریکی رائے اور رویہ کیا ہے؟ شمالی کوریا کو کیسے دھمکانا اور منانا ہے؟ مشرق وسطیٰ میں امریکی کیسے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں؟ صدر ٹرمپ نے انہیں بالکل واضح الفاظ میں دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔وہ ہر بات براہ راست کرتے ہیں، لفظی ڈپلومیسی سے کام لینا ان کی سرشست میں ہی شامل نہیں اور جو دھونس کی پالیسی امریکا جہاں بھی چلانا چاہتا ہے یا چلاتا ہے، صدر ٹرمپ کی جانب سے اس کا بھی کبھی انکار نہیں کیا گیا۔ ایران کے بارے میں پہلے صدور کچھ لگی لپٹی رکھتے تھے مگر ٹرمپ نے بہت واضح طور پر اپنی پالیسی کا اظہار کردیا۔ وہ اس بات سے کبھی نہیں ڈرتے کہ دنیا کیا کہے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکا ہی ساری دنیا ہے، امریکا جہاں جب چاہے اپنی من مانی کرنے کا اہل ہے۔ اس یقین کے ساتھ وہ ہر بات کرتے ہیں اور ان کی ہر بات اسی یقین کی بنیاد پر سچ بھی ثابت ہوئی ہے، انہیں کبھی کسی کی پرواہ نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بار پھر امریکا کے صدر منتخب ہونے جا رہے ہیں۔اس 2020 کے الیکشن میں ان کی فتح یقینی ہے کیونکہ جو ویژن انہیں دے کر بھیجا گیا اور جو وہ لائے اور جو وہ رکھتے ہیں اور جس طرح کے کاموں کی ان سے توقع تھی، انہوں نے اس سے بھی بڑھ کر کام کیے ہیں اور بادشاہ گر نہایت خوش ہیں۔ انہوں نے خود کو نہ صرف خالص روایت پرست امریکی ثابت کیا ہے بلکہ خود کو ایک متنازعہ عالمی رہنما بھی ثابت کیا ہے جو دوسروں کو برُی طرح نیچا دکھانے میں عار محسوس نہیں کرتا ، خاص طور پر مسلمانوں اور کالے امریکیوں کو نسل پرستی کے واقعات کے بعد ان کا جھکاو¿ یہ ثابت کرچکا ہے کہ وہ روایتی خیالات کے حامل ہیں۔اسی طرح اسرائیل کےلئے ان کا کام تاریخی نوعیت کا ہے ، آج تک کوئی بھی امریکی صدر مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی اس طرح کھلی حمایت حاصل نہیں کرسکا جس طرح صدر ٹرمپ نے حاصل کی ہے۔ اس نے مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو کسی ایک طرف جھکنے کو مجبور کردیا ہے اور انہیں آخرکار اسرائیل سے معاہدے کرنے پر راضی کرلیا ہے۔ اب یہودیوں کی بھرپور کوشش ہوگی کہ صدر ٹرمپ ہی آئندہ صدر بنے کہ جو باقی معاملات ہیں وہ بھی بخوبی انجام پا جائیں اگر کوئی ان دیکھی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں تو وہ بھی صدر ٹرمپ کی جانب ہی ہیں کیونکہ ان قوتوں کی منشا پورا کرنے میں ٹرمپ ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے کورونا وائرس سے ضد لگائے رکھی اور اسے مذاق سمجھا اور اب الیکشن کی چال کے طور پر خود کو قرنطینہ بھی کرلیا کہ کورونا واقعی موجود ہے اور اس طرح خود کو ایک حقیقت پسند لیڈر منوا لیا ہے کہ جو حقیقت کو ماننے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتا۔ دوسرے وہ لابی جو کورونا کو ایک بلا بنا کر پیش کررہی تھی وہ بھی راضی ہوگئی اور اس طرح اس آخری مہینے میں اب تمام کارڈز صرف اور صرف ٹرمپ کے ہی ہیں۔آخری بات یہ کہ دوسروں کی درگت بنانے میں بھی ان کا ثانی نہیں ہے اور دوسروں کی درگت بنانا بحیثیت مجموعی امریکیوں کا ذوق بھی ہے کہ یہ ساری دنیا کو خود سے کم تر ہی گردانتے ہیں۔اسی رویے نے امریکہ کو آج خانہ جنگی کی نہج پر لاکھڑا کیا ہے ، ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو انتخابی شکست یا فتح کی صورت میں الرٹ رہنے کا مشورہ دیا ہے ، اس طرح تمام حالات و واقعات امریکی ووٹر زکے سامنے رکھے گئے ہیں جس سے صدر ٹرمپ کی فتح یقینی نظر آرہی ہے۔