پاکستانی ڈاکٹر مریضہ پر دِل دے بیٹھا!!!

0
151
حیدر علی
حیدر علی

کہتے ہیں وجود زن اور تاریخ ساز مرد آہن کے مابین محبت کا رشتہ ایک ایسا جذبہ ہوتا ہے، جو نہ کبھی باد مخالف سے گھبراتا ہے ، اور نہ ہی کوئی بلا یا عفریت اُسے خوفزدہ کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اِس پر آشوب لمحات میں بھی جب کورونا وائرس کا منحوس سایہ زندگی کی ساری خوشیوں کو سلب کر کے رکھ دیا ہے، ایک پاکستانی ڈاکٹر نے ایک لڑکی کو جو و ینٹی لیٹر کے ذریعہ اپنی سانسوں کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہی تھی، اُس پر دِل دے بیٹھا۔ اُس پاکستانی ڈاکٹر نے اُسے اِس بات کی یقین دہانی کرادی کہ چاہے جو کچھ بھی ہو ، وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اُسے بچا لیگا۔ پاکستانی ڈاکٹر جس کا تعلق لاہور سے ہے، اُس نے اُسے کہا کہ تم گلاب کے پھول کے مانند اِس چمن کی زینت ہو، تمہیں کچھ ہوگیا تو سارا چمن مرجھا جائیگا، ساری دنیا کو تمہاری زندگی سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہو گئیں ہیں۔ ساری دنیا تمہیں اپنی بقا کی علامت سمجھنے لگے ہیں، وہ سب تمہیں مینار روشنی بنا کر تمہاری جانب دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا تم اُنہیں مایوس نہ کرواور اپنے دشمن کو شکست دے دو۔ وہ لڑکی بھی جس کا تعلق پولینڈ سے ہے بذات خود ایک پروفیشنل نرس ہے اور وہ بیچاری بھی دوسروں کی جان بچاتے ہوے خود وائرس کا شکار ہوگئی تھی۔ رفتہ رفتہ دونوں میں محبت کا رشتہ بڑھنے لگا، وہ ایک دوسرے سے ایک لمحہ کیلئے بھی جدا نہ ہونا چاہتے تھے لیکن ایک چھوٹی سی رکاوٹ جو اُن کے درمیان حائل تھی وہ ہسپتال کے کچھ قواعد و ضوابط تھے، جس کے رو سے ایک ڈاکٹر اپنے کسی مریض سے اظہار محبت کرنے کا مجاز نہیں ہے لیکن یہ کوئی بہت بڑی خلاف ورزی نہ تھی جبکہ ہسپتال کے سارے عملے اُس کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، پاکستانی ڈاکٹر جو اسکالر شپ پر امریکاآیا ہے ۔شادی کے ذریعہ اپنے گرین کارڈکے مسئلے کو بھی حل کرنے میں کچھ نہ کچھ دلچسپی رکھتا تھا، اِسلئے اُس نے لڑکی کے ماضی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی بھی کوئی کوشش نہ کی تھی، اُس نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ معلومات شادی کے بعد بھی کر سکتا ہے، وہ ڈاکٹر ہے کوئی حکیم نہیں،بہر کیف جس دِن وہ لڑکی ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر نکل رہی تھی، وہ پاکستانی ڈاکٹر اپنے دوستوں اورہسپتال کے عملے کے ساتھ اُس لڑکی کا انتظار کر رہا تھا جیسے ہی وہ وہیل چیئر پر نمودار ہوئی ،ڈاکٹر شور شرابا کی گونج میں آگے بڑھااور یک زانو بیٹھ کر اُس نے ایک انگوٹھی اُس لڑکی کو پیش کردی اورپوچھا کہ کیا وہ اُس سے شادی کرنا پسند کرے گی؟لڑکی فوری جذبات سے مدہوش ہونے والی تھی لیکن اُس نے رضامندی میں اپنا سر ہلاکر شادی کی پیشکش کو قبول کرلی اور اِسی کے ساتھ وہ لڑکی اپنی ساری قوت لگا کر اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی اور ڈاکٹر کا بوسہ لے لیا، وہ دونوں بغلگیر ہوگئے۔پاکستانی ڈاکٹر اور پولش لڑکی ایک واحد جوڑا نہیں جو اِس قیامت خیز دور میں بھی نہ صرف اظہار محبت کر رہے ہیں بلکہ شادی کی پیشکش کرنے میں بھی کسی ہچکچا ہٹ سے باز نہیں آرہے ہیں،برصغیر ہند و پاک کے مغرب پرست یا مغربی ممالک کے نوجوان شادی کی پیشکش کرنے کے مواقع کو اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ قرار دیتے ہیں لیکن جبکہ شہر کے سارے ریسٹورنٹ ، پارکس یا خوبصورت و دلکش مناظر کے مقامات بند پڑے ہیں اور لوگوں کو گھر میں رہنے کی تلقین کی جارہی ہے، اِن ساری روایتوں اور رسموں پر جمود طاری ہوگیا ہے۔ نیوجرسی کے محبت کے متوالے مارک اور اُسکی منگیتر اِزابیل کا اولا” یہ پلان تھا کہ وہ ٹیکساس کے سان اینٹونیو کے کسی وائن یارڈ میں جا کر انگوٹھی پہنانے کے رسم کی ادائیگی کرینگے لیکن چونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے تمام غیر ضروری سفر کو منسوخ کر دیا گیا ہے
لہٰذاوہ دونوں فوری طور پر ایک پلان ” B“ کو ترتیب دینے پر مجبور ہوگئے۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب ہی واقع ایک بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی پر جاکر اِس رسم کو انجام دینگے۔ مارک نے اِس سے قبل کبھی ہائیکنگ نہیں کی تھی بالآخر وہ دونوں تین گھنٹے کی مسافت کے بعد 4 ہزار فٹ کی بلند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ، خوش قسمتی سے اُنہوں نے وہاں دوسرے لوگوں کو بھی موجود پایا، اُنہوں نے ایک خاتون سے درخواست کی کہ وہ اُنکی انگوٹھی پہنانے کی ویڈیو بنائے ، وہ خاتون خوشی سے اِس پر راضی ہوگئی، رسم کی ادائیگی خوش اسلوبی سے انجام پاگئی۔
دنیا بھر کے ہزاروں نوجوان کورونا وائرس کے مبہم خوف کو نظر انداز کر کے اپنے منگیتر سے رشتہ ازواج سے منسلک ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، یک زانو بیٹھ کر انگوٹھی کے ساتھ شادی کی درخواست کرنا لڑکے کیلئے ایک پہلا مرحلہ ہوتا ہے،بروکلین کے رافیل اور اُسکی منگیتر سارہ اِس تقریب کی انجام دہی کیلئے ایک سال قبل سے تیاری کر رہی تھی، اُن دونوں کا پلان تھا کہ وہ بروکلین کے اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ میں اِس کا اہتمام کرینگے اور جس میں تمام دوست احباب اور عزیز وا قارب کو مدعو کیا جائیگا تاہم وہ پلان تشنہ تعبیر ہی رہ گیا لیکن وہ شادی کی درخواست کرنے کی رسم کو التوا میں رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ دونوں نے یہ عہد و پیمان کیا کہ وہ ولیم برگ میں ایک دِن آرام و سکون سے گزاریں گے اور اُس کے بعد وہ غروب آفتاب کے منظر کا نظارہ کرنے کیلئے ساحل دریا پر واقع ڈومینو پارک جائینگے۔رافیل کیلئے یہی ایک سنہرا موقع تھا، وہ پارک میں اپنے ایک زانو پر بیٹھ گیااور مسکراتے ہوئے سارہ کو انگوٹھی پیش کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ اُس سے شادی کرنا پسند کرے گی، دوسرے تمام افراد جو ماسک پہنے ہوئے تھے، خوشی سے دیوانے ہوگئے جب سارہ نے ہاں کہہ دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here