بین الافغان مذاکرات !!!

0
96

دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ،افغان حکومت کی نمائندگی عبداللہ عبداللہ کی زیر قیادت وفد کر رہا ہے جبکہ افغان طالبان ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں مذاکرات میں شریک ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ویڈیو لنک کے ذریعے مذاکراتی عمل میں شامل ہیں۔ مذاکرات کے آغاز پر امریکہ، چین، اقوام متحدہ اور او آئی سی کی طرف سے نیک تمناﺅں کا اظہار اس امر کی دلیل ہے کہ دنیا افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ افغانستان سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے انخلا کے بعد بعض ریاستوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی دلدل میں دھنس جائے گا۔ ایسا ہونے کی صورت میں اس بات کاڈر موجود ہے کہ ملک پر تشدد پسند گروہوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان کی طالبان حکومت سے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ طالبان کے امیر ملا عمر نے امریکہ کو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اسامہ بن لادن ان کے مہمان ہیں اور ان کی پناہ میں ہیں لہٰذا افغان روایات کا احترام کرتے ہوئے وہ اپنے مہمان کو امریکہ کے سپرد نہیں کر سکتے۔ امریکہ نے اس مو?قف کو اشتعال انگیز قرار دیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر حملہ کر دیا۔ نیٹو اتحادی ممالک بھی اس امریکی مہم میں شامل تھے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کا ساتھ دیتے ہوئے اس جنگ میں اپنا کردار محدود سطح پر رکھا۔ پاکستان نے افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانے ختم کیے۔ پورے ملک میں دہشت گردانہ نظریات کے حامل افراد کے خلاف آپریشن کیے گئے۔ ان کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اور اہم شخصیات دہشت گردوں کے ہدف بن گئے۔ بیس سال کی مسلسل قربانیوں اور کوششوں کے بعد ملک میں امن بحال ہو چکا ہے۔ دوسری طرف افغانستان ہے جہاں امریکہ نے جمہوری نظام قائم کرنے کی بجائے اپنے پسندیدہ افراد کو اقتدار سونپ دیا۔ پہلے حامد کرزئی اور اب اشرف غنی امریکی مفادات کے نگران ہیں۔ اس دوران طالبان پہلے روپوش رہے تا ہم بعد ازاں وہ منظم ہوئے اور خود کو ایک طاقت کے طور پر مجتمع کیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے 60فیصد علاقے پر افغان طالبان کا قبضہ ہے۔ عوامی سطح پر طالبان کی حمایت موجود ہونے کی وجہ سے امریکہ کو خدشہ ہے کہ اشرف غنی حکومت عالمی فورسز کی مدد کے بغیر طالبان کے سامنے مزاحمت نہیں کر پائے گی۔ دوسری طرف امریکہ، چین، روس، پاکستان اور دیگر عالمی طاقتوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ افغانستان کی بدامنی خطے کی معاشی ترقی کا راستہ روکے ہوئے ہے۔چین نے خطے کو ایک تجارتی مرکز بنانے کا منصوبہ طے کر رکھا ہے، افغانستا ن میں اگر امن قائم نہیں ہوتا تو معاشی خوشحالی کے بہت سے خواب پریشان ہو جائیں گے۔ بدامنی کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جائے جو تمام مقامی دھڑوں کی نمائندگی کرتا ہو۔ طالبان کے سابق ترجمان اور مذاکراتی ٹیم کے رکن سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی سے پہلے وہ عوامل ختم کرنے ہوں گے جس کی وجہ سے جنگ جاری ہے۔ان کہنا تھا کہ ’ہم بھی جنگ بندی چاہتے ہیں ، جنگ بندی کی اپنی جگہ ہے، یہاں افغانستان کے نظام کے بارے میں مسائل ہیں، جن پر بحث ہو گی۔ جب ایک ایسا نظام بنے گا جو سب کو قابل قبول ہو گا، تب جنگ ختم ہوگی۔‘سہیل شاہین کے مطابق آنھیں آمید ہے کہ اس بات چیت کے ذریعے یہ مسائل حل ہوں گے۔طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ بات ہوئی ہے کہ جنگ بندی پر بحث بین الافغان مذاکرات میں ہوگی۔ افغان طالبان بلاشبہ افغان جنگ کے فاتح قرار پائے ہیں۔ امریکہ نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر انخلاءکا معاہدہ کیا اور اب بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس امر میں رتی بھر شک نہیں کہ پاکستان کوشش نہ کرتا تو امریکی انخلا کا منصوبہ بروئے کار نہیں آ سکتا تھا۔ پاکستان نے کئی برس کی جدوجہد کے بعد افغان طالبان اور امریکہ کو ایک میز پر بٹھایا۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے ناممکن دکھائی دینے والے بین الافغان مذاکرات کو ممکن کر دکھایا۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں وہ اقتدار کے واحد دعویدار ہیں۔ ایک بڑے علاقے پر قبضہ ان کے دعوے کی تائید کرتا ہے۔ طالبان کا ماننا ہے کہ افغان حکومت کوئی حیثیت نہیں رکھتی اسی لیے وہ صرف امریکہ سے بات کرنے کو ترجیح دیتے رہے۔ دوسری طرف افغان حکومت ہے جس کے اہم عہدیدار چاہتے ہیں کہ امریکی انخلاءکے بعد سیاسی نظام پر طالبان کی اجارہ داری نہ رہے بلکہ دیگر گروپ بھی سیاسی عمل کا حصہ نہیں۔ طالبان افغان حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی کہتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کی مخالفت صرف بھارت کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد بھارت کو خطے میں حاصل امریکی سرپرستی کسی حد تک کم ہو سکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here