ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
گزشتہ سے پیوستہ!!!
سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ فاتحان کربلا کو خدا کا کامل یقین تھا اور وہ اپنی آنکھوں سے اس دنیا سے اچھی دنیا دیکھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ قومی غیرت وحمیت کا بہترین سبق ملتاہے جوکسی اور تاریخ سے نہیں ملتا اورایک نتیجہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ جب دنیا میں مصیبت اورغضب وغیرہ بہت ہوجاتا ہے تو خدا کا قانون قربانی مانگتا ہے اس کے بعد تمام راہیں صاف ہوجاتی ہیں۔9 :- ایڈورڈ گبن مو¿رخ ومصنف ڈکلائین اینڈ فال رومن امپائرخاندان بنی ہاشم کی سرداری اور رسول اللہ کا متبرک چال چلن ان امام حسینؑ کی شخصیت میں مجتمع تھے۔ یزید کے خلاف ان کو اپنا مقصد پورا کرنے کی آزادی تھی جو کہ دمشق کا ظالم حاکم تھا اورجس کی برائیوں کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اورجس کا منصب خلافت انہوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یوم قتل کی صبح کو امام حسینؑ ایک ہاتھ میں تلوار اوردوسرے میں قرآن لےکرپشت مرکب پرسوارہوئے۔ قریب بمرگ ہیرو ان پرحملہ آورہو¿ا کہ یزید کے بہادرسپاہی ہرطرف بھاگ نکلے۔ امام حسینؑ کا پردردواقعہ ایک دوردراز ملک میں واقع ہوا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جوبے رحم و سنگ دل کو بھی ہلا دیتا ہے اگرچہ کوئی کتنا ہی بے رحم ہومگرامام حسینؑ کا نام سنتے ہی اس کے دل میں ایک جوش ہمدردی پیدا ہو جائے گا۔10:- مسٹرجیمس کارکرن مصنف تاریخ چین: دنیا میں رستم کا نام بہادری میں مشہور ہے لیکن کئی شخص ایسے گزرے ہیں جن کے سامنے رستم کا نام لینے کے قابل نہیں۔ چنانچہ اول درجہ میں حسینؑ بن علی کا مرتبہ بہادری میں ہے کیونکہ میدان کربلا ریت پرتشنگی اورگرسنگی میں جس شخص نے ایسا کام کیا ہو اس کے سامنے رستم کا نام وہی شخص لیتا ہے جوتاریخ سے واقف نہیں ہے۔ ایک کی داد ومثل مشہور ہے اور مبالغہ کی حد بھی ہے جب کسی کے حال میں یہ کہا جاتا ہے کہ دشمن نے چاروں طرف سے گھیرلیا لیکن حسین اوربہترین کو آٹھ قسم کے دشمنوں نے تنگ کیا تھا اوراس پربھی قدم نہ ہٹا، چنانچہ چاروں طرف دس ہزارفوج یزید کی تھی جن کے تیروں اورنیزوں کی بوچھاڑ مثل آندھی کے آتی تھی، پانچویں دشمن عرب کی دھوپ ہے اورچھٹا دشمن وہ ریت کا میدان تھا جو آفتاب کی تمازت میں شعلہ زن اور تنورکی خاکستر سے زیادہ پرسوز تھا بلکہ دریا قہر کہنا چاہیے جس کے بلبلے بنی فاطمہ کے پاو¿ں کے آبلے تھے اوردشمن سب سے ظالم بھوک اورپیاس مثل دغا باز ہمراہی کے تھے۔ پس جنہوں نے ایسے معرکہ میں ہزارہا کافروں کا مقابلہ کیا ہو پس ان پرخاتمہ بہادری کا ہوچکا۔ 11:-ڈاکٹر میسور ماربین جرمنی مو¿رخ سیاست اسلامیہ: ہمارے نزدیک قانون محمد کی حفاظت اورمسلمانوں کی ترقی اوراسلام کی اشاعت یہ سب کچھ حسینؑ کے قتل ہوجانے سے اور ان واقعات کے پیدا ہوجانے سے ہے۔ ملکی احساس اورہیجان مذہبی جوتعزیہ داری سے پیدا ہو¿ا کسی قوم میں نظرنہیں آتا تمام اعلیٰ صفات اورپولیٹیکل ریزولوشن کا احساس، امام حسینؑ کی عزاداری سے ہوگیا ہے اورجب تک اس عمل کو اپنا ملکہ قراردیتے رہیں گے پستی اورزبردستی قبول نہ کریں گے۔ امام حسینؑ اپنے زمانے میں سیاست اعلیٰ درجہ رکھتے تھے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ارباب دیانات میں سے کسی شخص نے ایسی مو¿ثرسیاست اختیارنہیں کی کہ جوآنجناب نے اختیار فرمائی۔ ان کا قصد سلطنت اور ریاست حاصل کرنے کا نہ تھا، صاف صاف اپنے ہمراہیوں سے فرماتے تھے کہ جو جاہ و جلال کی حرص وطمع میں میرے ساتھ جانا چاہتا ہے وہ ہم سے الگ ہوجائے۔ آپ نے بے کسی اور مظلومیت کواختیارفرمایا، حسینؑ کے واقعہ نے تمام وقائع پربرتری حاصل کرلی۔ حسینؑ کا واقعہ عالمانہ اورحکیمانہ اورسیاسی حیثیت کا تھا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
12 :- پروفیسربراو¿ن مصنف تاریخ ادبیات ایران
ایسا کوئی متنفس ہے کہ جو درددل رکھتا ہو اورپھرحالات کربلا کوپڑھ کر اس کا دل نہ پسیجے، بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ محرم کی عزاداری کے سلسلہ میں جوجزبات پیدا ہوتے ہیں خواہ شبیہیں دیکھنے سے ہوں یا نوحہ خوانی سے وہ نہایت کھرے اور سچے ہوتے ہیں اورغیرملکوں اور غیرمسلموں کو بھی ان کے مخلصانہ اور مو¿ثرہونے کا اعتراف کرنا پرتا ہے۔
13:- مسٹر والٹیر مشہورفرنچ اہل قلم
کربلا والے امام حسینؑ کے علاوہ دورتاریخ میں ایسی کوئی ہسٹری دیکھنے میں نہیں آئی جس نے بنی نوع انسان پرایسے مافوق الفطرت اثرات چھوڑے ہوں۔
14:- جرجی زیدان معروف مسیحی مو¿رخ
واقعہ کربلا ایک سانحہ عظیمہ ہے جس کی تاریخ عالم میں نظیر نہیں ملتی (غادہ کربلا)
اسی چودہ کے مبارک و مسعود عدد پراس سلسلہ مبارکہ کوختم کیا جاتا ہے۔ ورنہ سفینہ چاہیے اس بحربےکراں کےلئے
بنابریں حقائق امام حسینؑ کے فقیدالمثال کارنامہ کے متعلق بڑے فکروانبساط کے ساتھ کہا ہے کہ
انسانیت کے نام پہ کیا کرگئے حسینؑ ہردور کے بلند خیالوں سے پوچھ لو
٭٭٭