شبیر گُل
اوورسیز پاکستانی کمیونٹی امریکہ اور یورپ میں بڑی تعداد میں بستی ہے،ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس کمیونٹی میں بڑا مقام حاصل کریں گے،امریکن کانگریس سے لیکر سینٹ کے ممبران اور صدارتی امیدواروں تک اچھے مراسم اور تعلقات ہیں۔کئی تنظیموں کے عہدیدار انفرادی حیثیت میں وائٹ ہاو¿س تک رسائی رکھتے ہیں،ارکان کانگریس سے ذاتی حیثیت میں اچھے تعلقات ہیں۔بحثیت پاکستانی امریکن ھماری کچھ ذمہ داریاں ہیں جن سے ہم عہدابرا نہیں ہوپارہے۔مین اسٹریم میں وہ کام نہیں کر پارہے، جن کو کرنا ھماری ذمہ داری ہے۔ہمارا سارا زور ٹانگیں کھینچنے،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر صرف ہورہا ہے۔پاکستانی پالیٹکس کا کھیل یہاں کھیلنا، پی ٹی آئی نے گزشتہ کچھ سالوں سے بہت زور شور سے کر رکھا ہے جس کیوجہ ہماری کمیونٹی ریوریس جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی گروپ پارٹی پالیٹکس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھارہے ہیں۔
انتہائی ذہین ، پڑھے لکھے، پروفیشنلز اور متحرک افراد پاکستانی پولیٹکس میں مصروف ،اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلودکر رہے ہیں ، پارٹی الیکشنز اور گروپ بندیاں ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن ممبران کی طرح کی جارہی ہیں۔
جس کا نقصان ہماری کمیونٹی آئندہ ا±ٹھا سکتی ہے،کچھ پاکستانی پیسہ بنانے کے چکر میں بلیک میل کرنا اپنا مشن سمجھتے ہیں۔انتہائی منفی ذہنیت اور منفی اپروچ کے ساتھ کمیونٹی کے معززین کو معتون کرنا ان کا وطیرہ ہے۔
اور کئی گروپ پگڑیاں اچھالنے ،گندگی پھیلانے اور ایک دوسرے کو بے عزت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔کچھ حضرات بیرون ملک اپنے ہی ملک کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ہر دوسرے شخص کو انڈین ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے۔لوکل پالیٹکس اور مین اسٹریم میں ہمارا کردار نہ ہونے برابر ہے۔ہمارا سارا زور لوکل ،اسٹیٹ اور کانگریس نمائندگان کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ذاتی حیثیت میں ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں جس کا فائدہ ہم لابنگ کے ذریعے نہیں کرپا رہے۔ہماری نوجوان نسل انتہائی ٹیلنٹڈ ہے جسے تربیت اور تجربہ کی ضرورت ہے جس پر ہماری توجہ نہ ھونے کے برابر ہے۔اس کے برعکس انڈین کمیونٹی پالیٹکس میں بہت متحرک ھے۔ کئی ریاستوں میں لوکل، اسٹیٹ اور کانگریس کے موثر نمائندے ھیں۔ اور ان کی بھر پور آواز ہے۔اسی طرح بیس برس قبل امریکہ آنے والی بنگلہ کمیونٹی نے اپنی شناخت سے ملک کا نام بنایا ہے۔ہر ڈیپارٹمنٹ اور ادارے میں ان کے افراد موجود ہیں۔ لوکل ،اسٹیٹ اور نیشنل لیول پر بنگلہ کمیونٹی کے افراد قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔
مجھےاکثر بنگلہ ، یمنی اور افریقن کمیونٹی کے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔جہاں ان کمیونٹیز کی لیڈر شپ اپنی future generations کے لئے فکر مند نظر آتی ہے۔ یوتھ کے سمینارز منعقد کئے جاتے ہیں۔انکی مساجد یں Youth اور women’s empowerment پر توجہ دی جارہی ہے۔انکی اپنی فیملی کونسلنگ ہیں جہاں فیملی مسائل ، جاب creation ,ہیلتھ،انشورنس اور سوشل ایکٹیوٹیز میں نمایاں کام ہی اور ایکدوسرے کو مدد فراہم کی جا رہی ہے ۔
ہم دوسری کمﺅنٹیز کے اشتراک کے پروگرام کرنے کو تو تیار ھیں لیکن اپنی نوجوان نسل کے لئے اپنی تنظیمات کا مشترکہ لائحہ عمل بنانے کو تیار نہیں۔
ھمارا سارا زور پولیس آفیسرز کے ساتھ تصویریں بنانے ،برتھ ڈے پارٹیاں منانے ،اور پارٹی پولیٹکس کی نذر ھورھا ھے۔یوم پاکستان ھو، یا عید میلاد ،ایک ھی اسٹریٹ پر مقابلے بازی میں ھمارا کوئی ثانی نہیں۔پاکستانی پولیس آفیسرز بھی اسی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ھیں۔حالانکہ انکا کسی ایسے گروپ سے تعلق نہیں ھونا چاہئے۔
ھماری اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد ھے۔جسے ھم بڑی کامیابی سمجھتے ھیں۔زیادہ تر ان پڑھ اور جاہل افراد نے تنظیمیں بنا رکھی ھیں۔جو چند افراد کے ساتھ لنچ،ڈنر اور تصاویر کو بڑی کامیابی تصور کرتے ھیں۔ یہ سمجھتے ھیں کہ انکی اخبارات میں تصویریں بہت بڑا معرکہ ھیں۔ یہ افراد اخبارات کی کٹنگ اپنے حلقہ احباب یا گاو¿ں میں بھیج کر داد تحسین تو حاصل کرسکتے ھیں لیک جمع حاصل، کھایا، پیا ،گلاس توڑا ،چار آنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
اس اثنائ میں کمیونٹی کی پڑھے لکھےاور تجربہ کار افراد خاموشی سے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔شائد اپنی عزت نفس کی خاطر اس گند میں پڑنا مناسب نا سمجھتے ہوں۔
گزشتہ ایک دو سال میں کمیونٹی میں گند مچ گیا ہے۔ چند گندی ذہنیت کے اوچھے لوگوں نے ہر دوسرے معزز کو ذلیل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ھے۔ جس کا تدارک بہت ضروری ہے۔ڈیڑھ ماہ بعد صدارتی الیکشن ھیں لیکن ہم نے کوئی ایسا فورم نہیں بنایا جہاں ا±میدواروں کے سامنے اپنے ملک پاکستان کو علاقائی خطرات، کشمیریوں کے ساتھ ظلم، انڈیا کی نان اسٹیک ایکڑ ز کو مالی امداد، پاکستان کے گرد خطے میں موجودہ چیلنجز، شائد ہمیں اسکا ادراک نہیں یا ہمیں اپنے پیارے وطن سے محبت نہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری تصویر اخبار میں ہونی چاہئے،ٹیبل پر کھانا سجا ہونا چاہئے۔
ہم تو وہ لوگ ہیں جو کالے، اور سپینش لڑکوں کے ساتھ ملکر پاکستانی اسٹوڈنٹس بچیوں کو تنگ کرتے ہیں۔
ہم تو وہ لوگ ہیں جو ایکدوسرے کے کامیابیوں پر ک±ڑھتے ھیں۔ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اخلاقی ہو یا مالی ، ہم دوسروں کی عزت نفس مجروح کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دوسروں میں کیڑوں کی تلاش۔اپنے اندر کی گندگی، غلاظت اور بدبو ہمیں نظر نہیں آتی۔
اگر ھمیں واقعی اس معاشرہ کا حصہ بننا ہے توبحیثیت پاکستانی اپنے منفی رویوں اورسطحی اپروچ سے باہر آنا چاہئے۔ جو بغض اسر نفرت ہم نے ایکدوسرے کے ساتھ پال رکھی ھے اسے ختم کرنا چاہئے۔ہم کسی بھی فیلڈ میں ھوں ،اپنے کردار سے نام پیدا کرنا چاہئے۔کل کے دوستوں کو آج دشمن تصور نہیں کرنا چاہئے۔کمﺅنٹی کے سنجیدہ اور پڑھے لکھے افراد جن میں ،دانشور،ڈاکٹرز ،انجنئیرز اور بزنس کمﺅنٹی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد موجود ھیں۔ ایک ایسا مشترکہ پلیٹ فارن تشکیل دینا چاہئے جس سے ھمارے ملک پاکستان، یہاں بسنے والی ھماری نسل کو فائدہ ھو۔اورھم اپنے ملک کا اچھا نام بنا سکیں۔
٭٭٭