مجیب ایس لودھی، نیویارک
ہم لوگ عام زبان میں یا سوشل میڈیا پر بڑی بڑی نصیحتیں سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن عمل کے لحاظ سے ہم کچھ بھی نہیں،دوسری کی خامیاں تو ہمیں بہت نظر آتی ہیں لیکن اپنی ذات کو ہم یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں ، ہمیں چاہئے کہ دیگر لوگوں میں خامیاں تلاش کرنے کی بجائے ان کی اچھائیوں اور محنت سے حاصل کردہ ان کے مقام پر بھی نظر دوڑائیں ۔ آج میں اپنی آپ بیتی سے لوگوں کو سیکھنے کا موقع فراہم کر رہا ہوں، میں نے 25 دسمبر 1985 کو امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو میری جیب میں مشکل سے 50 ڈالر ہوں گے جبکہ آج اللہ تعالیٰ کا دیا سب کچھ ہے ،اپنا گھر ہے ، پاکستان میں بھی جائیداد اور بینک بیلنس ہے ، 35 سالوں میں زندگی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ، 5 گریجویٹ بچوں کے علاوہ بیوی ہے ، یہ سب بتانے کا مقصد ہر گز خودنمائی نہیں ہے بلکہ محنت کرنے والے افراد کے لیے ایک سبق ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے دن رات محنت کی ، آدھی آدھی رات کو اُٹھ کر کام پر نکلا ، 18 سے 20 گھنٹے اپنے اخبار کی ڈسٹری بیوشن کی اور وہ بھی کورونا وبا کے دوران، جب ہر روز لاشیں گرتی تھیں کہ دفنانے کی جگہ کم پڑ گئی تھی ، تمام پاکستانی ، بنگلہ دیشی اور بھارتی اخبارات بند ہوگئے تھے ، سڑکیں سنسان تھیں لیکن میں ہر جمعرات کو اپنا اخبار پرنٹ کروا کر پورے نیویارک اور نیوجرسی میں بانٹتا تھا ، ہر روز میں جب نکلتا تھا تو سوچتا تھا کہ کفن پہن لیا ہے ، آج میرا آخری دن ہے ، گھر پر بچے اوربیوی زندگی کی دعائیں کرتے نظر آتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا نام لے کر نکل جاتا اور کام ختم کر کے ہی گھر واپس لوٹتا ، آج 8 یا 9 ماہ بعد شہر کے چند لوگ جو گھروں میں بیٹھ کر بھونک رہے ہیں ، میری فیملی کو اور میرے مرے باپ پر کیچڑ اوچھال رہے ہیں ، وجہ صرف حسد ،جلن ہے کہ میں کیسے بچ گیا۔ میرے اخبار کو کیسے سٹی اور اسٹیٹ کے اشتہار ملتے رہے اور مل رہے ہیں ، انہیں صرف جلن اور انشااللہ اسی طرح جلتے کڑتے رہیں گے ، کاش وہ جتنا جلنے اور کڑنے میں وقت لگاتے ہیں اگر اس کا آدھا وقت وہ اپنے کام پر لگا دیں تو میں وثوق سے کہتا ہوں بہت ترقی کر سکتے ہیں ، اس کے علاوہ جس طرح وہ اپنا سارا وقت دوسروں کو بُرا کہنے میں لگاتے ہیں لوگوں پر الزامات لگاتے ہیں کیا انہیں اپنے دین کا ذرا بھی علم ہو تو وہ ایسا کام کبھی بھی نہ کریں کیونکہ وہ حضرت علی ؑ کا فرمان ہے کہ دوسروں کو بُرا کہنے والوں کا انجام قیامت والے دن انہیں بدترین آگ میں جلایا جائے گا اور اس دنیا میں بھی انہیں ایسی ہی سزا دی جائے گی کہ دن بدن ان کے چہرے مسخ ہو جائیں گے ، میرا ان حضرات سے صرف اتنا کہنا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے ، اپنی اپنی اصلاح کر لو ، معافی مانگ لو ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ معافی کا وقت بھی نہ ملے ، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں میری محنت کا صلہ دیا اور اتنا دیا کہ جتنا شکر ادا کروں کم ہے ، زندگی کا زیادہ وقت تو اللہ تعالیٰ کے کرم سے عزت سے گزار لیا، کچھ وقت مزید باقی ہے ، انشا اللہ وہ بھی خیرو عافیت سے گزر جائے گا ، میرے مضمون کا مقصد کسی کی دل عزاری نہیں بلکہ ہدایت کرنا ہے کہ غلط کاموں کو چھوڑ کر خیر کے کاموں پر توجہ دیں ، اس سے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت بھی سنور سکتی ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک کاموں کے کرنے کی توفیق دے ۔انسان کی کمائی دولت اور سب جائیدادیں اسی دنیا میں رہ جائیں گی ، انسان کے ساتھ صرف اس کے اعمال جائیں گے جس کی بہتری کے لیے ہم سب کو کام کرنا چاہئے ، اس میں شک نہیں کہ دنیا میں رہنے اور گزر بسر کرنے کے لیے صرف دین کی جانب گامزن ہونا ممکن نہیں لیکن ہم لوگوں کو دونوں میں اعتدال پیدا کرنا چاہئے ، دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنے والا شخص ہی کامیاب اور کامران ہے ۔
٭٭٭