اسلامی و فلاحی ریاست پاکستان کی سانحہ سیالکوٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہماری جاہل عوام ،جاہل حکمرانوں اور بے حس پولیس کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے ، سری لنکن منیجر کو ہجوم سے بچانے کا کھیل کم و بیش ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا ، فیکٹری کے باہر ہجوم کا جمع ہونا ، فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے ہجوم کو قائل کرنے کیلئے مذاکرات اور اس کے بعد ہجوم کا فیکٹری کی دیواریں اور دروازے پھلانگ کر اندرآنا اور سری لنکن منیجر کو ڈھونڈنا آخر اس سب کے دوران پولیس نام کی کوئی چیز کیوں نظر نہیں آئی؟ جوکہ صرف 20منٹ کی مسافت پر موجود تھی ، سانحہ کی وجوہات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں پولیس کے کردار پر بھی سوچنا چاہئے کہ آخر یہ کہاں تھی ؟یعنی چند درندے ایک انسان کو کاٹ کھانے کے لیے ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ کبھی دفاتر میں چھپ رہا ہے تو کبھی فیکٹری کی چھت پر بھاگتے ہوئے جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے ، اس سب کے دوران کوئی پولیس کو کال کرنے واالا نہیں ، ہزاروں ملازمین کی فیکٹری میں کوئی جان بچانے والا نہیں تھا ۔
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کو بچانے کے لیے فیکٹری کے اندر ان کے چند ایک ساتھیوں نے بھرپور کوشش کی تھی لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی یا نہ ہونے کے برابر تھی ، فیکٹری میں موجود عینی شاہدین سے معلوم ہوا کہ توہین مذہب کے الزام میں قتل ہونے والے پریا نتھا کے کم از کم چار ساتھی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس مشتعل ہجوم کے سامنے کھڑے رہے تھے تاہم ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔موقع پر موجود ایک عینی شاہد کے مطابق جب پریا نتھا کے چار ساتھی ان کو بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیل رہے تھے تو اس وقت اگر مزید مدد فراہم ہوجاتی تو ممکنہ طور پر پریا نتھا کی جان کو بچایا جاسکتا تھا اور اس میں فیکٹری کی انتظامیہ اور پولیس برابر کی قصور وار ہے کہ انھوں نے فوری اقدامات کو یقینی نہیں بنایا ۔
اب آتے ہیں سانحہ کی وجوہات کی طرف کہ آخر ایسا کونسا کارنامہ تھا جن سے لوگوں کے جذبات قابو میں نہیں رہ سکے ،انجینئر پریا نتھا 2012 سے سیالکوٹ کی اس فیکٹری میں بطور ایکسپورٹ منیجر ملازمت کر رہے تھے۔پنجاب حکومت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری منیجر کے ڈسپلن اور کام لینے کی وجہ سے کچھ ملازمین فیکٹری ان سے نالاں تھے۔ رپورٹ کے مطابق کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا۔ سری لنکن فیکٹری مینجر نے مشینوں کی مکمل صفائی کا حکم دیتے ہوئے مشینوں سے مذہبی سٹیکرز اتارنے کا کہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹیکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا تو وجہ توہین مذہب کی بجائے ذاتی عناد پر مبنی موصول ہوتی ہے یعنی ملازمین کی اکثریت کو ڈانٹ ڈپٹ اور پوچھ گچھ بالکل پسند نہیں تھی تو انھوں نے مذہب کی آڑ میں سر ی لنکن منیجر کو قتل کرنے کا گھنائونا کھیل کھیلا ۔
سری لنکن منیجر کو قتل کرنے کے بعد درندہ صفت ہجوم نعش کو فیکٹری سے گھسیٹ کر وزیر آباد روڈ پر لے گیاجہاں اس کو آگ لگا دی گئی ، موقع پر موجود پولیس افسر نے روکنے کی کوشش کی مگر نفری کم ہونے کی بنا پر وہ انھیں روک نہ سکے۔عینی شاہد کے مطابق فیکٹری کے اندر سری لنکن منیجر کے چار ساتھیوں نے پولیس کو متعدد مرتبہ فون کالز کیں لیکن کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا ۔لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نے پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سے منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔پریا نتھا کو بچانے کے لیے آگے آنے والے چاروں افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔ چاروں اس وقت منظر عام پر نہیں ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ خطرات محسوس کررہے ہیں۔
ایک طرف پاکستانی وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ پلیٹ فارم پر پوری دنیاکو باور کرا رہے ہیں کہ اسلام پر امن دین ہے جوکہ محبت ، بھائی چارے کا درس دیتا ہے ، مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیزی کا اظہار نہیں ہونا چاہئے تو دوسری طرف پاکستانی قوم اور اسلام کے ٹھیکیدار اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اسلام پرتشدد اور جبریت کا دین ہے جس کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور اس ہستی کا حوالہ دے کر غیرملکی کوقتل کیا گیا جن کی غیر مسلموں سے حسن سلوک کی احادیث کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک مذہب کی آڑ میں ذاتی عناد اور دشمنیوں کو منطقی انجام تک پہنچاتے رہیں گے ، آخر کب تک اسلام کو ایک بھیانک مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف کرواتے رہیں گے ۔اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنی آنکھیں کھول لیں اور خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ورنہ قیامت خود بتائے گی کہ آنا کیوں ضروری تھا۔
٭٭٭