محترمہ عائشہ مسعود صاحبہ
آپ نے آج اپنی فیس بک پر پوسٹ کیا کہ کسی تقریب میں کوئی سینئر خاتون افسانہ نگار ، ممتاز صحافی اور معروف ادبی شخصیّت پر جونیئرز کو ترجیح دی گئی اور وہ تصویر میں پیچھے کھڑی ہیں اور جونئیرز کرسیوں پر براجمان ہیں۔ حفظِ مراتب کا خیال نہیں رکھا گیا جو کہ رکھا جانا چاہئے تھا۔ میں آج کل نیویارک میں ہوں۔ مجھے کچھ علم نہیں کہ آپ کس تقریب اور کس خاتون کی بات کر رہی ہیں لیکن میں آپ کے موّقف کی پْر زور تائید کرتا ہوں اور قارئین کے لیے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں تاکہ ادبی سند رہے۔ ایک مرتبہ اسلام آباد میں ایک ادبی تقریب میں احمد فراز صاحب کو بھی مدعو کیا گیا۔ ہم دونوں اگلی نشتوں پر اکٹھے بیٹھے تھے اور گپ شپ کر رہے تھے۔ تقریب کا آغاز ہوا تو صاحبِ تقریب نے ایک بیوروکریٹ کو سٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی اور احمد فراز کو سٹیج پر بیٹھنے کی دعوت نہیں دی۔ علاوہ ازیں دو اور غیر معروف و بے مقام اشخاص کو سٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ تقریب کے آغاز کا اعلان ہوتے ہی احمد فراز نے مجھے کہا میں جاتا ہوں۔ میں معاملہ کی سنجیدگی کو بھانپ گیا اور خاموش رہا۔ تقریب کے بعد صاحبِ تقریب نے مجھ سے پوچھا کہ احمد فراز کیوں اْٹھ کر چلے گئے۔ میں نے کہا یہ تو آپ ان سے پوچھنا لیکن آپ کو حفظِ مراتب کا بھی خیال نہیں کہ ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر کی موجودگی میں آپ نے حکومتی ملازموں اور جاہلوں کو سٹیج پر بٹھا کر ان کی توہین کی ہے۔ ان کے گھر جا کر ان سے معذرت کریں۔اسی طرح ایک دفعہ ایک ادبی تنظیم کے صدر نے مجھے فون کیا اور اسلام آباد میں علامہ اقبال پر منعقد ہونے والے سیمینار میں بحیثیّتِ مقرر شمولیّت کی دعوت دی۔ میں نے پوچھاکہ تقریب کی صدارت کون کریں گے تو جواب میں ایک جاہل وزیر کا نام لیا۔ میں نے کہا کہ مہمانِ خصوصی کون ہو گا تو جواب میں ایک سرمایہ دار کا نام لیا۔ میں نے کہا معذرت خواہ ہوں جس تقریب کی صدارت ایک جاہل وزیر کر رہا ہو اور دوسرا جاہل بھی سٹیج پر براجمان ہو تو یہ علامہ اقبال کی روح کو اذیّت دینے کے لئے کافی ہے۔ میں ایسی محفل میں تقریر نہیں کر سکتا۔ میں نے ان سے معذرت کر لی۔
٭٭٭