کامیابی کی ضمانت کپتان!!!

0
108
جاوید رانا

سیاست کے کھیل میں عروج و زوال کے مراحل وطن عزیز کی تاریخ میں ایک سلسلہ جاریہ ہے اور یہ حقیقت اپنی جگہ مُسّلم ہے کہ اس کھیل میں پس پردہ مقتدرین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ آئین، جمہوریت، مقبولیت اور مہارت کی آڑ میں وہی کامران ہوتا ہے جسے پیا چاہتا ہے، اتوار کے روز ایشیاء کپ کا فائنل دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ اسپورٹس میں بھی جسے پیا چاہے وہی سہاگن کا فلسفہ اپنایا جاتا ہے۔ 58 رنز پر 5 وکٹ حاصل کرنے کے بعد پاکستان ٹیم اپنا مومینٹم برقرار رکھنے میں ناکام رہی اور سری لنکا کے مڈل آرڈر نے 170 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ جواب میں پاکستان بمشکل 147 رنز ہی بنا سکا اور پوری ٹیم آئوٹ ہو گئی۔ سری لنکا چھٹی بار ایشیاء کپ کا حقدار بنا۔ واضح رہے کہ بھارت سات دفعہ اس ٹورنامنٹ کا فاتحہ بن چکا ہے جبکہ صرف دو بار اس اعزاز سے پاکستان ہمکنار ہو سکا۔ اس بار کاغذ پر پاکستانی ٹیم کی تشکیل اس بات کی غماز تھی کہ دس سال بعد ایشیاء کپ ہم شاہینوں کے سر پر ہی بیٹھے گا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، آئی سی سی کی ٹاپ رینکنگ پر براجمان کپتان بابر اعظم پورے ٹورنامنٹ میں آف کلر ہی رہے۔ شاہین شاہ آفریدی سمیت متعدد بائولرز انجریز اور فٹنس کے مسائل کا شکار رہے جبکہ فیلڈنگ کی کمزوری تو ٹیم کا مستقل ایشو رہا ہے۔ فائنل میں بابر اورفخر کے جلد آئوٹ ہونے کے بعد تیسری وکٹ نے اسکور 102 تک پہنچایا لیکن سُست روی کے باعث 14 اوورز گزر چکے تھے، افتخار 30 گیندوں میں 32 رنز کر سکا تو رضوان 49 گیندوں پر 55 کے اسکور تک پہنچ پایا۔ بقایا 41 گیندوں میں شاہینوں کا آنا جانا ہی لگا رہا۔ 8 کھلاڑی ڈبل فگر میں نہ آسکے، بشمول بابر، فخر، نواز، خوشدل، آصف وغیرہ T-20 مقابلوں میں یہ صورتحال اور ناقص فیلڈنگ سے مخالف ٹیم کو مواقع فراہم کرنا فتح سے ہمکنار کرنے سے محروم ہی کرنا ہے۔ ایشیاء کپ میں تو پاکستانی ٹیم لڑھکتی پڑھکتی کسی طرح فائنل میں پہنچ ہی گئی تھی لیکن اب ورلڈ کپ سر پر ہے، پی سی بی خصوصاً سلیکشن کمیٹی اور کپتان کو اب بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہوگا۔ مڈل آرڈر کی کمزوری کُھل کر سامنے آئی ہے۔ اوپننگ کا مسئلہ سر اُٹھا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر فیلڈنگ و فٹنس کے مسائل ہیں جن پر قابو پانا ضروری ہے۔
ہم نے درج بالا سطور میں کپتان کے حوالے سے سوچنے اور بہتری کیلئے کچھ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ پاکستانی سیاست اور 92 کے کرکٹ ورلڈکپ جیسے والی ٹیم کا کپتان عمران خان اس حوالے سے اہم مثال ہے۔ کھیل کا میدان ہو، چیریٹی پراجیکٹ یا سیاست کا میدان، عمران نے ہر طرح اپنا لوہا منوایا ہے۔ پاکستانی سیاست میں کسی بھی وزیراعظم کو جب بھی بوجوہ اقتدار سے محروم کیا گیا ہے تو اس کی معزولی پر کوئی عوامی رد عمل (ماسوائے شہید بھٹو) نہیں آیا ہے۔ بلکہ لوگوں نے مٹھائیاں بانٹی ہیں۔ عمران خان کو 11 اپریل کو جب وزارت عظمیٰ سے متعینہ سازش کے تحت محروم کیا گیا تو اس بد عملی کیخلاف عوام کا طوفانی احتجاج پاکستانی تاریخ کا بے مثال ریکارڈ ثابت ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں اس تاریخی تبدیلی کی وجہ کسی کی سپورٹ، ہدایت یا پالیسی کے تحت نہیں آئی بلکہ خود کپتان کی اپنی سوچ، اسٹریٹجی، عزم اور سب سے بڑھ کر اس کی شخصیت و شفافیت کے باعث اور بروقت فیصلوں کے باعث ہوئی ہے۔ ایک جانب عمران اکیلا کھڑا تھا، مقابلے میں امپورٹڈ حکومتی ٹولہ اور آئینی، انتظامی، عدالتی و مقتددرین (نیوٹرل) اس کیخلاف نبرد آزما تھے لیکن جس قدر ظلم کی شوریدہ سری بڑھ رہی تھی، عوامی حمایت کا سمندر کپتان کے حق میں بڑھ رہا تھا۔ ہم مسلسل قارئین کو ان معاملات سے آگہی دیتے رہے ہیں۔ عمران کیخلاف مقدمے قائم کئے جاتے رہے، اس پر دہشتگردی، توہین عدالت، مائنس ون کے حربے آزمانے کیساتھ ساتھ اس کے وفاداروں، حمایتیوں کیخلاف گرفتاریوں، تشدد و محرومیوں کی انتہاء کر دی گئی مگر کپتان نہ صرف اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا بلکہ عوام کی حمایت نے اسے نہایت مضبوط بنا دیا ہے۔ عمران کی مقبولیت کا ثبوت سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے وہ میرا تھون بھی ہیں جن میں ملک ہی نہیں بیرون ملک سے بھی پاکستانیوں نے بھرپور طریقے سے عمران پر اعتبار و اعتماد کیا اور ریکارڈ تعداد میں عطیات دیئے۔ گزشتہ اتوار شمالی امریکہ سے 5 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد عطیات اور عمران سے یکجہتی بڑی مثال ہے۔
کپتان کی اسٹریٹجی، سچائی کی فطرت، بہتر و بروقت فیصلہ سازی اور عزم کا ہی نتیجہ ہے کہ تمام تر بندشوں، مخالفانہ حربوں اور منفی اقدامات کے باوجد عمران خان کامیاب و کامران ہے۔ عمران خان کے حوالے سے اب یہ تاثر آ رہاہے کہ مقتدر حلقے اپنے رویوں میں لچک پیدا کر رہے ہیں، کپتان کے کامران خان کے پروگرام میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور آئندہ انتخابات کے بعد نئے آرمی چیف کی تقرری کے اظہار خیال سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ بیک ڈور رابطوں میں بہت کچھ طے ہو اہے یا ہو رہا ہے۔ فیصل آباد میں کپتان کا موجودہ چوروں، ڈاکوئوں کی حکومت کے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر اعتراض اور اب موجودہ چیف کی توسیع کی تجویز میں بہت معنی پوشیدہ نظر آرہے ہیں۔ ایک جانب تو مقتدرین سے تعلقات کی بحالی کے تاثرات سامنے آرہے ہیں تو دوسری جانب یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اور جلد ہی عبوری سیٹ اپ کی تشکیل نظر آ رہی ہے نیز یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں موجودہ سیاسی حکومتی ٹولے کی اکثریت کی جیت کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں کیونکہ عمران ہر گز چوروں، ڈاکوئوں کی حکومت سے آرمی چیف کی تعیناتی پر کبھی رضا مند نہیں ہوگا تو عام انتخابات کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے، ہر ذی شعور اس کا اندازہ بخوبی کر سکتاہے۔
اس تمام تر حکایت کو بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہی ہے کہ اگر کپتان زیرک ہے، راست سوچ کا اور بروقت راسخ فیصلوں کا حامل ہے تو کامیابی و کامرانی اس کا مقدر بنتی ہے۔ مشکلات اور کمزوریوں کو سمجھتے ہوئے فیصلے کرنا وننگ ٹیم اور اسٹریٹجی کا صحیح استعمال اور کسی بھی لغزش یا غلطی کا تدارک ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ پی سی بی اور فیلڈ میں کپتان کو ورلڈکپ کیلئے ان عوامل پر عمل پیرا ہونا ہوگا تاکہ قوم کی امیدیں آنسوئوں میں تبدیل نہ ہوں۔ فخر، آصف یا خوشدل یا کوئی بھی ضروری یا مجبوری نہیں ہونا چاہیے کہ بہتر ٹیم اور بہترین لیڈر ہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here