قائد اعظم محمد علی جناح!!!

0
119
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے موقع کی مناسبت یہ ہفتہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام رہا آپ کی وفات ستمبر کے حوالے سے مقالہ لکھنے اور معلومات یکجا کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ اس میں اپنی رائے و خدشات کا بھی تزکرہ موجود ہے ۔
دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات اور پڑوس میں ایک ظالم چائے والے کی مطلق العنان حکومت جو ایک مذھبی طبقے کو خاص طور پر نشانہ بنائے ہوئے اس کے پیروکاروں پر ذندگی تنگ کررہی ہے اور اس بابت مملکت پاک کا مضبوط جواز بھی مہیا کررہی ہے کہ قائد اعظم نے میں کافر اعظم جیسے الزامات برداشت کیئے لیکن ان کوہندوتوا اور تنگ نظر ہندئوں کے عزائم کا قبل از وقت ادراک تھا جس کے نتیجے میں قائد اعظم نے دو قومی نظرئیے کے تحت مملکت پاک کے قیام کا بیڑہ اٹھایا اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیا بے شک یہ قائد کا احسان عظیم ہے جو پاکستان کے مسلمان آج سر اٹھا کر جیتے ہیں اور وہ جیسے بھی حالات میں ہوں آذاد ہیں اور ایک آذاد قوم ہیں ۔ویسے تو قائد اعظم محمد علی جناح کے بہت سے فرمودات ہیں جو اکثر دہرائے جاتے ہیں لیکن قائد کا فرمان جو دل کی گہرائیوں میں جا بستا ہے وہ یہ کہ! دنیا کی کوء طاقت پاکستان کو مٹا نہیں سکتی ۔ الحمد للہ اللہ اکبر! اب زکر ہو زرا قائد کی ذندگی اور ان کی جدوجہد کا جس کا سرسری تزکرہ ہوگا وگرنہ اس کیلئے پوری کتاب اور کء جلدیں درکار ہیں جو قائد کی زندگی پر روشنی ڈال سکیں ۔اپنے زمانہ قیام انگلستان (تا ) میں قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ قانون کے مطالعے کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے ۔ دارالعوام میں انگلستان کے نامور سیاست دانوں گلیڈ سٹون ، ڈزریلی ، سالسبری اور مورلے وغیرہ کی تقاریر سننا ان کا دل پسند مشغلہ تھا ۔
وہ سب سے کم عمر ایشیائی طالب علم تھے ، جنہیں اپریل کو بیرسٹری کی ڈگری ملی ۔ پیشہ وارانہ زندگی کی ابتدا: ٭ میں قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ مراجعت فرمائے وطن ہوئے تو ان کے والد کا کاروبار انتہائی خسارے میں جارہا تھا ۔ اگرچہ والد کی خواہش تھی کہ وہ کراچی میں پریکٹس شروع کریں ، لیکن انہوں نے بمبئی کو ترجیح دی اور بمبئی ہائی کورٹ میں اپنا نام رجسٹرکرالیا ( اگست ) شروع شروع میں انہیں نہایت نامساعد حالات سے گزرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے بڑی مستقل مزاجی سے محنت جاری رکھی ۔ آہستہ آہستہ ان کی قانونی قابلیت کے جوہر عیاں ہونے لگے ، چنانچہ وہ پہلے ہندوستانی وکیل تھے جنہیں بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل میکفرسن نے اپنے چیمبر میں کام کرنے کی اجازت دی۔ مئی کو انہیں چھے ماہ کیلئے پریذیڈنسی مجسٹریٹ مقررکیا گیا، لیکن جب ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ کی یہ آسامی انہیں مستقلا پیش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اتنا روپیہ روزانہ کمانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ غرضیکہ چار برس ہی میں انہوں نے وکالت کے پیشے میں اپنی حیثیت تسلیم کرالی تھی۔
سیاسی زندگی کی ابتدا: ٭ تک قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ نہ صرف وکالت میں نام پیدا کرچکے تھے بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی پوری طرح روشناس ہوچکے تھے۔ چنانچہ انڈین نیشنل کانگریس کے سالانہ اجلاس میں جب برطانوی رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے ایک وفد بھیجنے کی تجویز زیر غور آئی تو طے پایا کہ اس میں ممبء کی نمائندگی جناح اورگوکھلے کریں گے ۔ ٭بحر کیف ان کی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز میں ہواجب انڈین نیشنل کانگریس کے سالانہ اجلاس میں وہ اس کے صدر دادا بھائی ناروجی کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے شریک ہوئے ۔ اس جلسے میں وقف علی الاولاد کے موضوع پر ان کی پہلی پبلک تقریربہت سراہی گئی ۔ پارلیمانی زندگی کا آغاز: ٭منٹو مارلے اصلاحات کے تحت میں ہونے والے انتخابات میں قائد اعظم علیہ الرحمہ نے بھی حصہ لیا اور بمبئی کے شہری مسلم حلقے سے امپیریل لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوگئے ، جہاں انہوں نے بہت جلد ایک نڈر سیاست دان ، محب وطن، اور قانون دان کی حیثیت سے اپنی پارلیمانی صلاحیتوں کا لوھا منوالیا۔ جنوری کو پہلے ہی اجلاس میں ان کی وائسرائے لارڈ منٹو سے دلچسپ جھڑپ ہوگئی ۔ قائد اعظم نے جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے بارے میں برطانوی حکومت کی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ظالمانہ قراردیا تو وائسرائے ، جو صدارت کررہے تھے چونک اٹھے اور کہا کہ معززرکن کو جلسے کے آداب کا خیال رکھنا چاہئے۔ قائد اعظم نے فی الفور جواب دیا کہ جناب والا ! اگر آداب کا خیال نہ ہوتا تو میں اس سے کہیں زیادہ سخت الفاظ استعمال کرتا۔ مارچ کو انہوں نے مسلم اوقاف کے متعلق اپنا مشہور و معروف مسودہ قانون پیش کیا ، جس کی تیاری میں انہوں نے مسلم فقہائے کرام کی کتب کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ان کے وزنی دلائل کے باعث یہ مسودہ قانون میں باقاعدہ قانون بن گیا۔ یہ ان کی بہت بری کامیابی اور اسلامی ہند کی بہت بڑی خدمت تھی قائد اعظم کی بصیرت اور زہانت کے قائل ھندوستان کی انتہاء معزز سیاسی ھستی نے یہ کہا تھا کہ میرے ساتھ پوری کانگریس نہ ہو صرف جناح ہو تو میں مطمئن ہوں اور کیا سے کیا کردوں یہ اس شخصیت کے الفاظ ہیں جن کے نام سے آج مغربی لائبریریاں بھری پڑی ہیں جن کے اقوال دنیا دہرا رہی ہے وہ خود جناح کے پرستار تھے سبحان اللہ قائد اعظم نے ایک بے گناھ کو سولی سے بچایا اور وہ مشھور زمانہ واقعہ جب انہوں نے جلاد کو کہا کہ پھانسی ہوگئی اس کو اب اتارو سزا یہی تھی اس کے بعد برٹش سزائے موت کے قانون میں تبدیلی کی گئی کہ سزائے موت کے مجرم کو موت تک تختہ دار پر لٹکایا جائے ہر چند کہ موضوع تشنہ ہے اور اب کالم کی جگہ اجازت نہیں دے رہی قائد کی فیملی ایکٹ میرج قانون کی تبدیلی اور اس سے نتھی شادی کا قصہ پھر بیان کرونگا اب اگلے ہفتے تک اجازت دیں حاضر ہوتا ہوں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here