فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
266

محترم قارئین! تمام اہل اسلا کو نیا اسلامی سال1444ء مبارک ہو۔اللہ تعالیٰ اس میں سب اہل اسلام پر ایسی برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے کہ قیامت تک اہل اسلام کے لئے نفع رساں اور ترقی اور عروج کا باعث رہیں۔امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے رفقاء رضی اللہ عنھم کی قربانیوں اور دینی خدمات کو یاد کرنے کا مہینہ ہے۔باقی عمومی طور پر تو جب بھی اسلامی جرنیلوں اور تاریخ اسلام میں انقلاب بپا کرنے والوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو آپ کا ذکر خیر بھی ضرور ہوتا ہے، آپ کا نام نامی الحسین، کفیت ابوعبداللہ اور القابات سیدالشھدائ، سبط رسول ہیں۔آپ کی ولادت باسعادت پانچ شعبان المعظم4ھ بروز پیر شریعت مدینتہ المنورہ میں ہوئی۔پیغمبر خدا، حبیب کبریا، امام الانبیائۖ آپ کی ولادت کی خبر سن کر اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنھا کے حجرہ مقدسہ میں تشریف لائے۔حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے کپڑے میں لپیٹ کر حضورۖ کی گود میں رکھ دیا۔آپۖ نے دائیں کان میں اذان پڑھی اور بائیں کان میں تکبیر کہی اور فرمایا:اے علی!!اس بچے کا کیا نام رکھا ہے؟عرض کی آقا میری کیا تاب ہے کہ آپ سے پہلے نام رکھوں، مگر خیال ہے کہ حرب نام رکھا جائے۔آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس کا نام رکھنے کے لئے وحی کا منتظر ہوں۔اسی اثناء میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لے آئے اور عرض کی:یارسول اللہ!اس بچے کا نام حضرت ہارون علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کے نام پر رکھیں۔آپ نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کا نام کیا ہے؟عرض کی اس کا نام شبیر ہے۔آپۖ نے فرمایا:اے جبریل یہ تو عبرانی زبان ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے عربی زبان عطا فرمائی ہے، جبریل علیہ السلام نے عرض کی، یا رسول اللہ!شبیر کا معنی حسین ہے، رسالتۖ ماًبۖ نے آپ کا نام نامی حسین رکھا۔ ساتویں روز دومینڈھوں کا عقیقہ کیا اور سر کے بال اتروا کر بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کی۔جب آپ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ تعالیٰ نے جبریل امین علیہ السلام کو بھیجا کہ تو میرے محبوب پاکۖ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر حسین رضی اللہ عنہ کی مبارک پیش کر اور ساتھ ہی تعزیت کی خبر بھی سنا۔جب جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے تو آپۖ امام حسین کو گود میں لئے ہوئے گردن کو چوم رہے تھے جبریل علیہ السلام نے مبارک پیش کرنے کے بعد تعریت کا آغاز کیا تو آپۖ نے فرمایا:مبارک کی وجہ تو معلوم ہے اگر اس موقع پر تعزیت کیسی؟عرض کی یارسول اللہ!اس شہزادے کے حلق نورانی پر جہاں آپ بوسے دے رہے ہیں ان کی والدہ محترمہ کے وصال، والد گرامی کی شہادت کے بعد اشقیائے امت خنجر خوں خوار چلائیں گے اور طرح طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ گرائیں گے۔اور ساتھ ہی جبریل علیہ السلام نے کربلا میں پیش آنے والے کچھ واقعات کا حال سنایا:آپۖ کی مبارک آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے: اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے سیلاب اشک بہہ گیا اسی حالت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا:خیر تو ہے آج خوشی کا دن ہے نہ کہ غم کا اگر خوشی کے آنسو ہیں تو ٹھیک ہے اور اگر غم کے ہیں تو اس کی وجہ بتائیں؟حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:فاطمہ یہ غم حسین کے آنسو ہیں۔تمہارے والد محترمۖ نے جبریل علیہ السلام سے سن کر مجھے بتایا ہے کہ امت کے چند بے رحم لوگ آپ کی بوسہ گاہ یعنی حلقوم حسین رضی اللہ عنہ کو تیغ جفا سے مجروح کردیں گے۔اور اسے فاطمہ رضی اللہ عنھا سن کر مفہوم ہوئیں۔لیکن آنسو بہے سب کے التواء واقعہ کی دعا کسی نے بھی نہیں کی۔سب نے کامیابی کی دعا کی۔جرات وبہادری اور استقامت مانگی اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر سب راضی رہے یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں کو ہلا دینے والے ظلم وستم امام علی مقام کیا آپ کے قافلہ میں شامل کسی بچہ اور کسی مستور کے پایہ استقلال واستقامت میں تذبذب نہیں ڈال سکے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا حسن وجرال اس قدر تھا کہ جب آپ اندھیرے میں بیٹھے تو لوگ آپ کی جبین اقدس کی شعاعوں اور چہرہ انور کی روشنی میں راستہ دیکھ لیتے تھے۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سرانور سے سینہ تک اور امام حسین رضی اللہ عنہ سینہ اقدس سے پائوں تک حضور علیہ السلام سے مشابہت رکھتے تھے۔حقیقت یہی ہے جو اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے کہی ہے کہ یارسول اللہۖ تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا ہے تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو اللہ پاک نے جنت کے نوجوانوں کا سردار بنایا ہے جتنی بڑی سیٹ اتنا بڑا امتحان ہے تو آپ نے بھی اسی کا میابی حاصل کی کہ اس کی حقیقت یہ ہے۔نہ یزید کا وہ ظلم رہا نہ ابن زیاد کی وہ رہی جفا۔جو رہا تو نام حسین کا جیسے زندہ رکھتی ہے کربلا اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here