محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ہر چند کہ میں محرم الحرام کی وجہ سے تعطیلات پر ہوں اور سوائے مجالس و مرثیہ و رسومات محرم الحرام میں ہی آج کل مصروف رہتا ہوں ،مغربی ملک میں یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ بچوں کی تربیت کا معاملہ ہے اس وجہ سے کوئی خاص موضوع زہن میں نہ آیا تو کراچی کی خدمت کرنے والے ایک سپوت کا زکر کردیا جو مضمون بھی میرا کہیں لیکن کیونکہ تاریخ میں ایسے خدمت گار یاد رکھے جاتے ہیں اور کتابی و مطالعاتی لوگ ان کو اوراق میں ہی سہی زندہ رکھتے ہیں اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
زاھد حسین صاحب کی تحقیق اور اچھی کاوش لیکن دل برداشتہ نہ ہوں آپ کو محرم الحرام کی مناسبت سے ایک ایسی لوح پیش کرونگا کہ آپ اس کے فوائد و برکات خود مشاھدہ فرمائیں گے اس لوح کا نام ( لوح امام حسین ) ہے اس میں کمالات جفر پوشیدہ ہیں لوح کو مضمون کے آخر میں لکھا ہے بعد نماز فجر یا عصر اس کو تحریر کرکے پاس رکھیں امام حسین کی نذر فاتحہ کا اہتمام کریں اور پھر باندھ لیں جملہ حاجات پوری ہونگی اور ترقی و برکات مشاھدہ ہونگی ،لوح کے نیچے مختصر مقصد حاجت یا اپنا نام مع والد یا والدہ درج فرمالیں اس کی تفصیلات تو اس مقالہ میں نہ لکھ سکا اس لوح کے اسرار کبھی بیان کرونگا یہ ہر خانہ میں دس عدد کے اضافہ سے بھری گئی ہے جو دس محرم یا عشرہ کو مد نظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے ۔۔ ابھی صرف اتنے بھید ہی باقی آئندہ کالم میں لکھوں گا *تحقیق و تحریر: زاہد حسین*جمشید نسروانجی کی آج *70ویں برسی* کے موقع پر مختصر تحریر*بابائے کراچی* جمشید نسروانجی رستم جی مہتہ 7 جنوری 1886 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ ملک کے صف اول کے *سماجی کارکن تھے، جنہوں نے خاص طور پر کراچی کیلئے تن من دھن ایک کردیا اور کراچی کو وہ شکل دی، جو دنیا بھر میں اس شہر کی پہچان بنی۔ وہ 1914 میں کراچی میونسپلٹی کے رکن بنے اور 1933 تک اس کے رکن رہے۔ وہ 1922 سے 1933 تک لگا تار *گیارہ سال* کراچی کے میئر رہے۔ انہوں نے اپنی *میئر شپ* کے زمانے میں کراچی کے توسیع کے متعدد منصوبے بنائے۔ کھلی سڑکیں، باغات اور کھیلوں کے میدان تعمیر کروائے۔ شہر کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کیا اور ہر وارڈ میں ایک پرائمری اسکول، ایک ڈسپنسری اور میٹرنٹی ہوم قائم کیا۔ فائر بریگیڈ اور ایمبولینس کا اہتمام کیا۔ان کے زمانے میں کراچی ایک چھوٹے سے قصبے سے بڑھ کر ایک بڑا اور جدید شہر بن گیا۔ *کراچی* کی مشہور سڑک *جمشید روڈ* کا نام انہی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ *جمشید نسروانجی* صحت عامہ کے حوالے سے خاص طور پر فکر مند رہتے تھے۔ خصوصا زچگی کے حوالے سے۔ انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا کہ شہر کے تمام علاقوں میں زچہ بچہ کے مراکز قائم کیے جائیں۔ اس سلسلے میں پہل انھوں نے خود کی اور اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں *جہانگیر پارک* کے قریب ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔ انہوں نے دیگر مخیر افراد اور دردمند دل رکھنے والے صاحبِ ثروت دوستوں کی مالی مدد سے دیگر میٹرنیٹی ہومز بھی بنوائے۔ 1919 میں جب کراچی میں انفلوائنزا کی بیماری وبا کی صورت پھیلی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت کی۔ جس وقت *جمشید نسروانجی* نے کراچی کے میئر بنے، اس وقت کراچی کی سڑکیں پکی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پکی سڑکیں صرف شہر کے خاص علاقوں میں تھیں اور *کراچی* میں اس وقت ان سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی۔ جمشید نسروانجی نے اپنی *میئرشپ* کے دوران سڑکیں بھی تعمیر کرائیں۔ جب وہ *میئر کراچی* کے عہدے سے سبک دوش ہوئے تو اس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تارکول کی دبیز تہہ بچھائی گئی تھی جس کی وجہ سے یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ تقسیم کے وقت تک کراچی کی سڑکیں بالکل ہموار ہوتی تھیں۔ ان سڑکوں پر گڑھوں کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا۔ کراچی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا باقاعدہ آغاز جمشید نسروانجی ہی کے دور میں ہوا۔ جب آرٹلری میدان کے علاقے میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کام مکمل کیا گیا۔ اس وقت کے قوانین کے مطابق کسی بھی ادارے کو پانی کے استعمال کا ٹیکس عمارت کی تعمیر پر آنے والی لاگت کے حساب سے ادا کرنا ہوتا تھا۔ انہی دنوں آرٹلری میدان میں واقع چیف کورٹ *(سابق سپریم کورٹ اور موجودہ سندھ ہائی کورٹ)* کی عمارت کو بھی پانی فراہم کیا جانے لگا۔ چیف کورٹ کی عمارت 30 لاکھ میں مکمل ہوئی تھی۔ اس حساب سے چیف کورٹ کو 7 فیصد ٹیکس ادا کرنا تھا۔ اس وقت کی بیوروکریسی اتنا بھاری ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ بلاآخر جمشید نے ٹیکس نہ ادا کرنے کی صورت میں چیف کورٹ کا پانی بند کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ اطلاع ملتے ہی نوکر شاہی میں ایک ہلچل مچ گئی۔ مبمئی سے ایک سرکاری افسر دوڑا دوڑا کراچی پہنچا۔ آخر کار یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کر لیا گیا۔ *کراچی کے اس عظیم محسن نے یکم اگست 1952 کو وفات پائی*
٭٭٭