محاذ آرائی اور بڑھے گی!!!

0
335
جاوید رانا

زندہ اور باشعور قوموں کا تعین اس حوالے سے کیا جاتا ہے کہ آزمائش اور آفات کی گھڑی میں وہ تمام معاملات واختلافات کو بھلا کر یکجان ومستعد ہو کر آئی ہوئی مشکل سے نکلنے اور اپنے لوگوں اور مال واسباب کے تحفظ وبقا کیلئے عمل پیرا ہوں۔ اور نجات حاصل کریں۔وطن عزیز پاکستان میں بھی ماضی میں2005ء کے زلزلے سیلاب وطوفان کی تباہ کاریوں اور APC جیسی آزمائشوں میں ساری قوم نے اجتماعی طور پر اپنی انسانی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں ہر سیاسی، گروہی، اداراتی وطبقاتی تفریق سے بالاتر ہوکر قومی وحدت واتفاق کا مظاہرہ کیا اس بار موسمی تغیرات کے باعث مون سون کی بارشوں سے ملک بھر میں جو انسانی ومالیاتی لرزہ خیز تباہ کاریاں کراچی سے خیبر تک ہوئی ہیں، ان کے حوالے سے ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ُدشواری کے ان لمحات میں ہمیں قوم کہیںنظر نہیں آئی۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب(خصوصاً جنوبی پنجاب) اور پختونخواہ سمیت ملک کے کسی گوشے میں انتظامیہ، سیاسی اشرافیہ، میڈیا حتیٰ کہ سماجی وفلاحی تنظیموں تک کا کوئی مثبت کردار وعمل مفقودیا غیر مؤثر ہی نظر آیا۔ قدرتی آفات کی اس گھڑی میں کہ جب بلوچستان مکمل طور پر ڈوب گیا، دریائے سندھ کے سیلاب میں لاشیں تیرتی رہیں، سینکڑوں اموات ہوگئیں اور اربوں کے مال مویشی تباہ، فصلیں برباد ہوگئیں حکومت وقت اور انتظامیہ کا کردار محض معاوضوں اور بحالی کے اقدامات کے اعلانات تک ہی محدود رہا۔ شوباز وزیراعظم حسب معمول لانگ بوٹ پہن کر دوروں اور اعلانات میں مصروف رہے وزیراعلیٰ سندھ قدرتی آفات کا حوالہ دے کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتے نظر آئے، کسی نے یہ زحمت نہ گوارا کی کہ ان کی انتظامیہ خانما برباد عوام کی بحالی ورستگاری کیلئے اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہی ہے یا نہیں۔افسوس تو اس بات کا بھی کہ ہمارا میڈیا بھی اس قومی ایشو کو اجاگر کرنے کے بجائے سیاسی اتار چڑھائو اور رسہ کشی کو فوقیت دیتا رہا۔حد تو یہ ہے کہ ملک کی سب سے مقبول اور عوامی حمایت کی اکثریتی جماعت کا مقبول ترین رہنما اور اس کے عہدیداران و ذمہ داران نے بھی اس حالت زار کو ترجیح دینے کی جگہ پنجاب میں حکومت سازی اور اپنے مخالفین کو مطعون کرنے کو ہی اپنی ترجیح جانا۔البتہ متاثرین ومصیبت زدگان کی مدد وبحالی کے لئے ہماری افواج نے (آرمی،نیوی وایئرفورس) حسب معمول اپنی خدمات انجام دیں۔ہماری ان سطور کے لکھے جانے تک بلوچستان میں آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر جس میں کورکمانڈر سمیت6افسران حالات کا جائزہ لینے کے لئے محو پرواز ہوئے اور وطن کے یہ سپوت فرض کی خاطر شہادت پا گئے۔
ایک جانب تو وطن عزیز کو یہ صورتحال درپیش ہے، دوسری طرف ہماری سیاسی اشرافیہ(مخلوط حکومت واپوزیشن) اپنی سیاسی چمتکاریوں اور مفادات کے تحفظ کے لئے عمل پیرا نظر آرہی ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے طرح طرح کے اقدامات و دعوئوں کی بھرمار ہے بلکہ آئینی وسکیورٹی اداروں کو بھی ہدف بنانے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد امپورٹڈ حکومت کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے اور اس کے پاس اپنی بقاء وتسلسل کے لئے اب کچھ نہیں بچا ہے تو وہ پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کے فیصلے کے لئے اپنا سارا زور لگانے پر اتر آئی۔دوسری جانب کپتان اور اس کے حواری الیکشن کمیشن کے چیئرمین واراکین کے خلاف پنجاب و پختونخواہ اسمبلیوں سے قرار داد منظور کرا چکے تو الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کا اعلان کردیا۔
فیصلہ سنایا گیا اس فیصلے کے ناطے مرزا غالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے”تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیںگے پرزے۔ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا” سچ تو یہ ہے کہ آٹھ سال سے جاری فارن فنڈنگ کیس کا جس قدر شور شرابا برپا تھا۔ اس کیس کا فیصلہ اتنا ہی ٹھنڈا ٹھار اور کنفیوزنگ نکلا، فارنگ فنڈنگ کی بنیاد پر دائر کیس کے فیصلے میں ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوئے اور چیئرمین پی ٹی آئی کے تصدیقی عمل کو خلاف قانون و ضوابط قرار دیا گیا۔اب اس فیصلے پر قانونی موشگافیوں اور عدالتی محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہوگا جو طویل عرصے تک جاری رہنے کے آثار کی پیش بینی ہے۔حکومت اس فیصلے پر اپنے دعوے کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی پارٹی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے ارادے دکھا رہی ہے جبکہ کپتان الیکشن کمیشن خصوصاً چیئرمین کو حکومتی اشرافیہ کا مہرہ قرار دینے کے اپنے مئوقف پر قائم ہے اور جمعرات کو الیکشن کمیشن پر مظاہرہ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔دوسری جانب سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے تین سے چار ماہ میں نواز لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی کے کیسز کے فیصلے آنے کا انکشاف کیا ہے۔
ہمارے اندازے اور تجزیئے کے مطابق متذکرہ بالا فیصلے کے بعد سیاسی قوتوں کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی کا دروازہ کھل گیا ہے یہ محاذ آرائی نہ صرف عدالتوں کی سطح پر آئینی وقانونی بقراطیت کے زور پر ہوگی بلکہ سیاسی سطح پر بھی شدت سے برپا ہوگی۔اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت سیاسی طور پر عمران خان کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بھرپور حمایت وسپورٹ اور غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس رہنما یا جماعت کو عوامی حمایت حاصل ہو، اسکی کامیابی ومقبولیت کے آگے کوئی آئین، قانون یا قید وبند بیکار ہوجاتے ہیں۔اس وقت عمران خان مقبولیت کی ان حدوں پر ہے کہ اسکے خلاف کوئی بھی اقدام عوامی غصے اوراحتجاج حتٰی کہ عدم استحکام وانتشار کا باعث ہوسکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ فیصلہ ساز ایسی صورتحال پیدا ہونے سے احتراز کریں گے کیونکہ عوام کی طاقت آگے کوئی نہیں ٹہر سکتا ہے عوام کے جذبات عمران خان کے لئے درج ذیل شعر کی حقیقی تصویر ہیں:
دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رخ موڑ دیا ہو
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here