غریب ختم کر کے چھوڑینگے!!!

0
333
شبیر گُل

میرے پاکستانیو، بس آپ نے گھبرا نا نئیں!پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں یا بلوں میں اضافہ ہو ۔ آپکے بقول پیسے وزیراعظم کی جیب میں جاتے ہیں ۔ وزیراعظم چور ہوتا ہے ، اب آپ کہتے ہیں جو لوگ ترقی کرتے ہیں وہ گھبرایا نہیں کرتے، میں انگلینڈ اور یورپ میں رہا ہوں، مغرب کو جانتا ہوں ۔تو جناب یورپ جیسا انصاف ہی مہیا کر دئجیے ۔ کبھی ریاست مدینہ ، کبھی چائنیز ماڈل اور کبھی انگلینڈ کی مثالیں دیکر قوم کا وقت برباد نہ کیجئے۔ کچھ کر کے دکھائیں۔
یہ جوہم ریاست مدینہ بنانے جارہے ہیں۔غریب آدمی سکون کی نیند سوئے گا۔ہم نے سوچا ہے کہ ملک کی آبادی کو پہلے نیچے لائینگے پھر ریاست مدینہ بنائینگے کیونکہ ریاست مدینہ میں آبادی کم تھی۔آپ گھبرائیں نہیں ۔ ہم غربت کے خاتمہ کیلئے ،پاکستان سے غریب کو کم کردینگے ، پاکستانی کی آبادی بہت زیادہ ہے ۔خدارا! پرانے چوروں کو یا تو قانون کے کٹہرے میں لائیے یا انکا نام لینا چھوڑ دئجیے۔اپنی دو سو افراد پر مشتمل قابل ترین ٹیم کی کارکردگی دکھائیں ، سوا تین سال قابلیت دکھانے کے لئے کافی ہوا کرتے ہیں۔آپکی بھڑکیں دھواں میں تخیل ہو چکی ہیں۔وزیراعظم صاحب کرپٹ سیاستدانوں سے ہاتھ بیشک نہ ملائیںلیکن اپنے اردگرد کرپٹ مافیا کے بارے ہی بتا دیں ۔اب عوام نے آپکی باتوں پر گھبرانا چھوڑ دیاہے۔
*آپ کے پاس پٹرول تو نہیں مگر گنے کی پیداوار میں پوری دنیا میں آپ کا پانچواں نمبر ہے ، کیا آپ سستی چینی حاصل کر پا رہے ہیں؟
: Absolutely Not*:
*آپ کے پاس پٹرول تو نہیں مگر گندم کی کاشت میں آپ کا آٹھواں نمبر ہے. کیا آپ کو سستی روٹی دستیاب ہے؟
*Absolutely Not*
آپ کے پاس پٹرول تو نہیں مگر چاول کی پیداوار میں آپ دسویں نمبر پر ہیں۔تو کیا عام شہری با آسانی اچھا چاول خرید سکتا ہے۔
*Absolutely Not*
*آپ کے پاس تیل تو نہیں مگر کپاس کی پیداوار میں آپ کا چوتھا بڑا ملک ہے۔
تو کیا ہر شہری با آسانی تن ڈھاپنے کا کپڑا خرید سکتا ہے۔
*Absolutely Not*
*اگر تیل دریافت ہوا بھی تو وہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، زرداریوں، چوھدریوں، سومروں، ملکوں، نیازیوں، خانوں، ن لیگیوں گیلانیوں، چٹھوں اور خلائی مخلوق والی اشرافیہ پے مشتمل60 70 خاندانوں کی چمکتی ہوئی قسمت کو مزید چمکائے گا۔*
*جب کہ آپ تب بھی اپنی قسمت و نصیب کے نچوڑے تیل کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے*
*Absolutely Right*
*دنیا کے ممالک تیل سے نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ترقی کرتے ہیں۔ *عوام دریافتوں سے نہیں عدل و انصاف سے خوش حال ہوتے ہیں۔
*اس لیئے تھوڑا نہیں پورا سوچیئے۔!
*کرپٹ نظام کے خلاف شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اور اپنے حصے کا دیا جلانا ہوگا ۔
ملک ریاض ،البراج گروپ ،زرداری گروپ ،ترین اور شریف گروپ سبھی آزاد ھیں اور ویسے ھی ناجائز دولت اکٹھی کرنے میں مصروف ہیں،آپ کہتے تھے لوگوں کو دہلیز پر انصاف ملے گا ۔ تھانہ کلچر ختم ھوگا۔ ساہیوال جیسے درد ناک واقعات ھو گئے۔ لیکن آپ کے سر پر جوں نہئں رینگی۔وہی تھانہ کلچر۔ وہی کرپٹ مافیا، وہی مہنگائی ۔ زخیرہ اندوز بیلگام ۔قیمتیں بے قابو۔ وزرا لوٹ مار میں مصروف آپ کہتے ھیں گھبرانا نہیں ۔آپ کہتے ہیں ملک سے مہنگائی ،کرپشن اور بے انصافی کا خاتمہ ہو گا ۔ہمیں تو غریب عوام کا خاتمہ نظر آرہا ہے۔
وزیراعظم صاحب آپ نے ملک کے تاجر سے تجارت چھینی۔غریب عوام سے ذہنی سکون چھینا۔پی ٹی آئی کارکن کی hope چھنی۔آپ نے وعدہ کیا تھا لوٹی دولت سو دنوں میں واپس لانگا۔ لیکن آپ نے لٹیروں کو ساتھ ملا لیا۔آپ نے کہا بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے۔آپ ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کی بلیک میلنگ میں انہیں پارٹنر بنا لیا۔
پھر آپ کہتے ہیں گھبرا نہیں۔یوتھیا آپکو کبھی علامہ اقبال اور کبھی قائداعظم کی ٹوپی پہنا کر انکا کا حقیقی جانشین ثابت کرتا رہا۔ لیکن آپ نے ان غریب کارکن کو زندہ درگور کردیا۔ آپک نوجوان شرلی وزیر جو اکثر کہتے تھے سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں سیاستدانوں کے پڑے دو سو ارب واپس لائینگے۔ملکی دولت لوٹنے والوں کو جیلوں میں بند کرینگے ۔ان میں کوئی ایک بات حقیقت ثابت نہیں ہوئی۔ پانامہ کے مجرموں کو تخفظ کے بعد اب پینڈورا بکس کے لٹیروں کی کرپشن بھی دبائی جارہی ہے۔ جس میں موجودہ منسٹرز ملوث ہیں۔آپ کہتے ہیں میرے پاکستانیوں آپ نے گھبرانا نہیں۔
پی ٹی آئی انتقامی سیاست کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ تبدیلی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔پی ٹی آئی کے بد تہذیبوں کا طرز غیر مہذب رہا۔ جن کو اپنے علاوہ سب چور اور گنہگار نظر آتے ہیں۔حالانکہ یہ جماعت دوسری پارٹیوں کے میل کچیل پر مشتمل ٹولہ ہے ۔ کئی شرفا انکی رو میں بہہ کر ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں ۔بھارت سے فنڈنگ کا الزام لگانے والے بتائیں کہ اب کیسے کالعدم تحریک لبیک سے پابندی ختم کی ۔تحریک لبیک پی ٹی کیطرح منہ زور گھوڑا بن چکی ہے جن کا طرز سیاست آنے والے دنوں میں ایم کیو ایم جیسا ہوگا۔
یوتھیا پھر بھی کہتا ہے کہ وہ خود ایماندارہے ۔ جس نے سب پرانے چور اور گندے انڈے ،ایک ھی ٹوکری میں جمع کر لئے ہیں۔بچپن میں پنجابی فلم میں ولن کا ڈائیلاگ ۔ہا ہا ہا ،میں گاٹے لا دیاں گا۔سنا کرتے تھے ۔ آجکل وہ دور واپس آچکا ہے۔ ولن وزیراعظم صاحب آپکی بڑھکیں الیاس کاشمیری ، مصطفے قریشی اور مولا جٹ والی ہیں ۔خان صاحب آپ روزانہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں ۔ کیا ریاست مدینہ میں عوام کرب میں مبتلا تھی۔آپکی لاجواب، بے مثال کارکردگی نیسب کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔آپ نے پوری قوم کو دکھی کردیا ہے۔آپ گھبرانا نہیں کی لوریاں دیکر عوام کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیاہے۔ قوم آپکے روزانہ کے جھوٹ پر انتہائی دکھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک دکھی کی خدمت کرنا ۔ ایک مہینہ مسجد نبوی میں اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔آپ دکھی انسان انہوں کے آنسو پونچھنے کی بجائے بجلی اور گیس کے بے تماشہ بلوں کی اذیت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔مہنگائی کے درد ناک عذاب ۔کبھی پٹرول اور کبھی نجانے کون کونسے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دفن کر رہے ہیں۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔عوام کیوں گھبرائے ۔ آپ نے بیروزگاری میں انتہا کا اضافہ کردیا ھے۔یوتھیے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ وزیراعظم غریبوں کے لئے لنگر خانے قائم کررہے ہیں ۔وزیراعظم صاحب کا احساس راشن پروگرام ۔ جس کی تنخواہ اکتیس ہزارسے کم ہوگی، وہ آئی ڈی دکھا کر تیس فیصد رعایت پر گراسری خرید سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان صاحب ایک متوسط گھرانے کا تیس ہزار میں بجٹ بنا کر دکھائیں۔
اگر کسی کے چار بچے اور میاں بیوی ہیں۔پانی، بجلی، گیس کا بل۔ بچوں کی فیس، گراسری، سبزیاں، فروٹ، گوشت ،کپڑے ،جوتے ،دودھ وغیرہ ۔ میں گھر کا بجٹ بناکر دکھائیں۔ نہیں بنا سکیں گے۔ بڑی بڑی باتیں اور دعوے سمجھ سے بالا ھیں۔مزدور اور چھوٹی جابز والے سرکاری ملازمین مہنگائی سے تنگ ہیں۔مفلسی کے شعلے آسمان سے بات کر ر ہے ہیں ، غریب فاقوں کی آگ میں جھلس رہے ہیں ۔حکمران ماضی کے حکمرانوں پر ہر نالائقی اور کوتاہی ڈال کر موجودہ کرپشن کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ خان صاحب دھرنوں میں بجلی کے بل جلاتے رھے ۔ اب بتائیں عوام کون کونسے بل جلائیں۔ ابھی تک عمران خان کے کہی الفاظ کی سیاہی خشک نہیں ہوئی ،وعدوں کی گونج بھی برقرار ہے۔عوام میں مہنگائی سے فریسٹرین بڑھ رہی ہے۔
تیل انتہائی مہنگا ہو گیا ہے جس سے ٹرانسپورٹیشن اور اشیا خوردونوش کی قیمتیں تین گناہ بڑھ چکی ہیں۔مہنگائی سے تنگ کئی خوددار لوگوں نے بچوں سمیت خودکشیاں کی ہیں۔عمران کو غریب لوگوں کی پرسان حالی اور داد رسی کا کوئی ادراک نہیں۔گھبرانا نہیں کی تلقین ایک مذاق بن چکا ہے۔بار بار ریاست مدینہ کا ذکر کرنا پھر اس لفظ کی دھجیاں اڑانا بہت افسوسناک ہے ۔مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی کا کہنا ہے زبان سے کہنا کہ ہم خدا اور رسول کو مانتے ہیں مگر زندگی کے معاملات میں ہر وقت دوسروں کی بات کے مقابلے میں اللہ اور رسول کی بات کو رد کرتے رہنا ، نہ ایمان ہے نہ ہی اسلام ، بلکہ اسکا نام منافقت ہے۔جب کسی قوم کی تباہی کا زمانہ آتاہے تو اس کے بگاڑ کی ابتدا اس کے خواص سے ہوتی ہے۔وزیراعظم صاحب اپنی کہی گئی باتوں کا جائزہ لیجئے۔جھوٹ اور یوٹرن بہت ہو چکے ۔ غریب کے زخموں پر مرحم رکھیے جو آپکی تبدیلی کی چکی میں پس چکا ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here