سفر نامہ کرا چی!!!

0
183
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ابھی کچھ لو گ باقی ہیں جہاں میں!!!
قارئین ! احسان فراموش ،محسن کش ، بے دید ، بے فیض ، بے مروت اور بے پیندہ کے افراد اس دور میں کوئی کم نہیں ہیں۔ جنکی وجہ سے کار خیر میں بسا اوقات رکاوٹ آجاتی ہے ۔ تاہم شرفا، زعما اور کرما کی بھی کثرت ہے۔ اس گئے گزرے معاشرے بھی کچھ لوگ پرانی روایات کے حامل موجود ہیں جن میں رکھ رکھا، خاندانی وجاہت اور خیر خواہی بطور کامل موجزن ہے۔ ایسے مخلص افراد میں سے ایک برادر عزیز راشد زیدی سلمہٰ ہیں۔ جو ایک طرف تو ایک سید ہیں دوسری طرف بڑے تاجر اور تاجر زادہ تیسری طرف اس وقت سوز سلام خوانی اور نوحہ خوانی میں بین الاقوامی شہرت کی سرحدوں کو چھو رہے ہیں۔ چوتھی طرف ہم جیسے سینکڑوں سفید پوشوں کو قرض دینے والے اور مشکل میں کام آنے والے ہیں ۔ فیاض ہیں تو اعلیٰ درجہ کے ، خوش اخلاق ہیں تو بہت عالی شان ، ہنس مکھ طبیعت ہیں تو کم نظیر ، ظریف فطرت ہیں تو کم مثال اور ہر دلعزیز ہیں تو لاجواب ۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے دین کو نہیں چھوڑا ہے۔ انکے اہل خانہ اور بچے دین ابراہیمی، شریعت محمدی ، ولایت علوی اور کاروان عزاداری کے ہراول دستے میں شامل ہیں ۔ نیویارک کی عزاداری کی خدمات میں کوئی مورخ جہاں ذاکر اہل بیت اظہر زیدی ، ملک اعجاز، انجم شاہ، میر مراد علی خان ، احتشام کاظمی۔ احتشام نقوی، نواب آغا، شوکت جعفری ، ڈاکٹر منظور رضوی، میر محمد علی نقوی مر حوم، اصطفی نقوی، زوار شاہ، بلال زیدی، حماد زیدی، سادات مدینہ سیداں ، مومنین اٹک، کراچی، لاہور، شگر یوں، پنڈی والوں، اہلیان کراچی، ملتانیوں ، سرایکیوں پنجابیوں، اہل ہند، لکھنو یوں ، سیدوں، امتیوں ، سندھیوں، پنجابیوں، مہاجرین ، پٹھانوں، سرائیکیوں ، بلوچوں، شمالیوں اور سینکڑوں قومیتوں کو نہ بھولے گا وہ زیدیوں کی پارٹی سپیشن کو بھی فراموش نہ کریگا ۔ راشدزیدی سال رواں کے ماہ ربیع الاول میں اپنی والدہ ماجدہ کی علالت کے پیش نظر کراچی میں تھے۔ صبح و مسا اسپتال کے چکر لگا رہے تھے۔ ہم بھی صبح و شام انسے خیریت پوچھتے۔ ایک روز بہت پریشان تھے تو میں نے رت جگے کے دو عمل شروع کیے اور عہد کیا کہ جب تک ہماری یہ بزرگ سیدانی شفا یاب نہیں ہوتیں رات میں نہ سووونگا۔ ساتھ ہی زیدی فیملی کو ایک خاص عمل بتایا کہ وہ اسے بارہ ہزار بار پڑھیں۔ اللہ نے انھیں شفا دے دی ۔ اسی دوران نے خود سے راشد زیدی سے کہا کہ میں آکر دعا پڑھونگا ٹکٹ خرید لی۔ راشد زیدی نے مجھ سے کہا تھا کہ آئیں تو ہم ابا کی مجلس برسی بھی آپ سے پڑھوا لینگے۔ اگرچہ شفایابی اور محترمہ کی خانہ منتقلی پر ایک مقصد تو پورا ہو گیا تھا ۔ تاہم مجلس امام حسین ع کا وعدہ کر لیا تھا تو ائر پورٹ پہنچے ہماری نادرا والوں کا بھلا ہو کہ ایک نیا قانون نکالا کہ پاس ٹریک کا نمبر چاہیے ہمیں معلوم نہ تھا اور مجھے اور میرے اہل خانہ کو پاکستانی پاسپورٹ اٹھانا یاد ہی نہ رہا تو فلائیٹ چھوٹ گئی ۔ یہ کورونا کے دنوں میں کسی اور وجہ جیسے رپورٹ انسپائر ہونے اور لاک ڈان کے سبب دوبار پہلے ہو چکا اور میں واپس گھر آجاتا مگر اب کیونکہ امام حسین ع کا جاب تھا میں نے امام حسین ع کیلئے کبھی پیسہ یا زحمت کی پروا نہیں کی۔ نئی ٹکٹ خریدی اور پاس ٹریک پہلے ہی لے لیا تھا تو بحمد اللہ کراچی پہنچے، راشد زیدی اور انکے بھتیجے جری زیدی فرزند شاہد زیدی سلمہ نے ائیرپورٹ سے پک کیا۔ الحمد للہ کراچی کی روشنیاں اور رونقیں بحال ہو چکی ہیں۔ کوئی خوف و خطر موجود نہیں۔ نہ گولی نہ بم نہ خود کش حملوں کا ڈر نہ اغوا ۔ رات ہی کو پہلی مجلس مقرر تھی۔ یہ مجلس بیاد محسن اسلام حضرت ابو طالب ع اور برائے ایصال ثواب سید شائق حسین زیدی ابن سید خادم حسین زیدی تھی۔ جب معلوم ہوا کہ میں آرہا ہوں تو ہماری شیعہ قوم کے سب سے معروف خطیب علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اگلے روز اپنے مرحوم بھائی مولانا سید عون محمد نقوی اور اپنی اہلیہ عالمہ ذاکرہ لبنی صالحہ تقوی بنت سید زوار حسین تقوی کے ایصال ثواب کی مجلس بھی رکھ لی اور اس سے اگلے روز آیت اللہ علامہ طالب جوہری طاب ثراہ کے فرزندان ارجمندان علامہ ریاض جوہری، علامہ اسد جوہری اور علامہ امجد جوہری نے اپنے والد کے قائم کردہ مدرسہ امام حسن عسکری ع میں مرقد آیت اللہ جوہری کے جوار میں مجلس ایصال ثواب رکھ لی۔ ان تینوں مجالس میں شہر کے جید علما، فضلامعروف خطبا، زعما اور ماتمی انجمنوں کے سر کردہ افراد تشریف لائے۔ مجھ جیسے چھوٹے طالبعلم کو جو پذیرائی اہلیان کراچی نے دی وہ بے مثال ہے ۔ میں 32 سال قبل کراچی چھوڑ گیا تھا۔ اہلیان کراچی کی دیرینہ محبت مجھے ہمیشہ یاد رہی مگر ان چار روز میں تازہ محبت اور قدردانی کیدیپ اب کبھی نہ بجھینگے۔ میرے شاگردوں کی بڑی تعداد کراچی میں خدمت دین مبین میں مصروف ہے اللہ انکی توفیقات میں اضافہ فرمائے
سارے تو نہ آسکے مگر کافی ضرور تشریف لائے۔
جناب شاہد نقوی جو راشد زیدی کے بڑے بھائی ہیں نے میزبانی اور پذیرائی کے ریکارڈ توڑ دیے۔ انکے دو اور بھائی بھی مجلس میں ملے ۔ شاہد زیدی کے فرزند جری عابدی نے رائڈ دیا۔ علامہ محمد نقی نقوی، محمود جعفری، صفدر کاظمی ،سروش رضوی، عامر ملک نے خصوصی دعوت ہائے طعام و چائے کا اہتمام کیا۔ عالم ربانی مولانا نسیم آغا فرزند عزت لکھنوی، مولانا عباس مہدی ترابی، مولانا غلام حسین اسدی، مولانا بشیر حسین بھاکری ، اپنے کزن ملک قمر عباس نوحہ خوان عمران عباس خان و دیگر سے واپسی پر حاضری کا وعدہ کیا۔ علامہ اعجاز حسین نقوی، علی نوید حیدر اور ظہیر عباس نقوی نے فرائض نظامت انجام دیے۔ شعرا، سوز خوانوں اور سلام خوانوں نے بہتری کلام پیش کیے ۔ ہر مجلس کے اختتام پر نوحہ خوانی کی گئی سونو مونو، عمران عباس خان، صفدر زیدی،عامر ملک، قبلہ عابد حسین نقوی، سید سکندر زیدی، سید سہیل شاہ، ڈاکٹر زین اعظمی، حنین رضا، مرزا حسن مجتبئ، نصرت علی نقوی اور علامہ محمد نقوی، راشد زیدی نے منظوم نذرانہ عقیدت پیش فرمایا، مولانا ریاض حسین طاہری، مولانا کریم بخش، مولانا سید جواد، مولانا نقوی، مولانا اسد علی شاکری اور دیگر علما و طلبہ سے شرف ملاقات رہا۔ نسیم آغا نے بہت خوبصورت انداز میں حدیث کسا پڑھی
انجمن شباب المومنین، انجمن ذولفقار حیدری، انجمن ناصر العزا و دیگر نے نوحہ خوانی کی
شیعہ ایکشن کمیٹی کے روح رواں جناب راشد رضوی ، پاکستان سادات قومی اتحاد کے جناب خیر شاہ اور وادئی السلام کے عالم شاہ، ملک محمد خان ، خالد شگری ، سہیل یوسف زئی ، گلزار خان آف نیو یارک بھی شریک مجلس ہوئے۔ یہ مضمون عجلت میں لکھا ہے بہت سارے علما و زعما اور منقبت خوانوں سے واقف نہیں وہ محسوس نہ فرمائیگے
مدرسہ کے طلاب سے شرف ملاقات رہا، علامہ کی قبر پر فاتحہ پڑھا ۔ باب العلم میں مولانا عون نقوی اور مسز علامہ شہنشاہ کی فاتحہ خوانی کی ۔ نیو رضویہ جاتے ہوئے وادئی حسین کے مدفونین کی فاتحہ خوانی کا شرف ملا۔ سبط جعفر زیدی ، علامہ رشید ترابی ، علامہ نصیر الاجتہادی ، علامہ عقیل ترابی ، علامہ عباس کمیلی ، پروفیسر علی رضا شاہ نقوی۔ مولانا حسن ترابی ، علامہ عرفان حیدر عابدی ، علامہ عباس حیدر عابدی ، علامہ جاوید جعفری، مولانا نذر الحسنین ، صغیر عابد رضوی مولانا محسن نقوی شہدائے ملت جعفریہ ، مرحوم مومنین مومنات کراچی کیلئے اجتماعی فاتحہ خوانی کی ۔ بلند پایہ شعر ائے اہل بیت ع ملے۔ شیعیان علی ع بالخصوص حیدر آباد دکن اور کراچی والوں کی یہ خوبی ہے کہ جہاں گئے عزاداری ساتھ لے گئے ۔ انمیں نہ ہی لسانی تعصب ہے نہ علاقائی ۔ اسکا عملی ثبوت دیکھنے کو ملا ۔ مولانا حالی کا شعر یاد آگیا
بڑا جی خوش ہو ا حالی سے ملکر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
میں اہل کرا چی کا تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں۔ مجھ مسکین کا خیال رکھا ۔ اللہ انکا خیال رکھے اور آباد و شاد رہیں۔
آمین بحق المعصومین ع
ارسال از کلفٹن کراچی زیدی ہاس
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here