ایک سیکولر سابقہ چیف جسٹس پاکستان!!!

0
67
اوریا مقبول جان

آج سے گیارہ سال قبل جب یہ کتاب منظرِ عام پر آئی، تو اس میں درج حقائق نے لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا۔ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس جب ایک بہت بڑے کمیشن کا سربراہ بنتا ہے تو وہ بددیانتی کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے گیارہ مئی 1947 کو رائٹرز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ردوبدل کر کے اسے اس طرح درج کرتا ہے کہ قائد اعظم کے افکار سیکولر نظر آئیں۔ یہ شخص پاکستان کا سب سے متنازعہ عدالتی سربراہ چیف جسٹس پاکستان محمد منیر ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے پاکستان میں فوجی آمریت پر عدالتی مہر تصدیق ثبت کرنے کا راستہ دکھایا تھا۔ اس نے 7 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا کے مارشل لا کے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے لکھا تھا اگر انقلاب کامیاب ہو جاتا ہے اور اس کے تحت برسرِاقتدار آنے والے اشخاص، آبادی کو نئی حکومت کے مطابق چلنے پر آمادہ کر لیتے ہیں تو انقلاب بوجہ خود قانون بنانے والی حقیقت بن جاتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کے شریک ججوں میں ایم شہاب الدین، اے آر کارنیلس اور امیر الدین بھی شامل تھے۔ یہ فیصلہ 27 اکتوبر 1958 کی صبح سنایا گیا، اور اب کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق طاقت کی بنیاد پر حکومت حاصل کرنا جائز ہو چکا تھا اور سکندر مرزا کے پاس تھا ہی کیا ایک اعلی سول نوکری، اصل طاقت تو فوج کے پاس تھی جس کے بل بوتے پر سکندر مرزا نے مارشل لا لگایا تھا، اس فیصلے کی روح پر عمل کرتے ہوئے، رات کو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو ایوانِ صدارت سے نکال باہر کیا اور خود اس کرسی پر براجمان ہو گئے۔ اپنے اس متنازعہ ترین فیصلے سے کئی سال پہلے ہی جسٹس محمد منیر اپنے افکار کی وجہ سے سیکولر، لبرل قوتوں کی آنکھ کا تارا بن چکا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اہم شخص تھا جس نے قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا شروع کیا۔ مارچ 1953 میں پنجاب میں ختم نبوت کی بھر پور تحریک شروع ہوئی۔ تحریک کا آغاز وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے اس فیصلے کے بعد ہوا، جب اس نے علما کی مجلسِ عمل کے ان مطالبات کو مسترد کر دیا جو انہوں نے 21 جنوری 1953 کو اسے پیش کئے تھے۔ مطالبے دو تھے (1) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور (2) قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ کو عہدے سے برطرف کیا جائے۔ 27 جنوری کو مطالبات مسترد کرتے ہوئے اہم علمائے کرام کو گرفتار کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ہنگامے اس قدر شدید تھے کہ لاہور شہر کی حد تک جنرل اعظم کی سربراہی میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔ 19 جون 1953 کو گورنر پنجاب نے چیف جسٹس پاکستان محمد منیر اور جسٹس رستم کیانی کی سربراہی میں ہنگاموں کی تحقیقات کیلئے ایک انکوائری کمیشن قائم کیا۔ اس دو رکنی کمیشن کی لکھی ہوئی رپورٹ 10 اپریل 1954 کو سامنے آئی، جسے عرفِ عام میں منیر رپورٹ یا منیر کیانی رپورٹ کہا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ جہاں پاکستان کے سیکولر طبقات میں آج تک بہت مقبول ہے، وہیں قادیانی بھی اسے بہت شوق سے تقسیم کرتے ہیں۔ دونوں کا گٹھ جوڑ اور آپس میں حسن سلوک آپ کو آج بھی نظر آتا ہو گا۔میں جب 2015 میں بھارت یاترا کے دوران اچانک مرزا غلام احمد کے قادیان جا نکلا، تو ان کے پبلشنگ ہائوس میں یہ کتاب بہت بڑی تعداد میں نظر آئی۔ یوں تو یہ انکوائری کمیشن تحریکِ ختم نبوت کے دوران ہونے والے ہنگاموں کی تحقیق کیلئے بنایا گیا تھا، لیکن جسٹس منیر نے شرارتا، اسلام اور نظریہ پاکستان کے تصورات کو بھی زیرِ بحث لانا شروع کر دیا۔ وہ اس بحث سے اپنے مذموم مقاصد کا حصول چاہتا تھا۔ نظریہ پاکستان اور تخلیقِ پاکستان کو اسلام سے علیحدہ ثابت کرنے کیلئے ضروری تھا کہ جھوٹ اور دھوکے بازی سے بانی پاکستان قائد اعظم کو بھی سیکولر ثابت کیا جائے۔ ایسا مواد قائد اعظم کے افکار و خیالات اور تقاریر میں تو کہیں ملتا نہیں تھا۔ اس لئے جسٹس محمد منیر اور اس کے ساتھی جسٹس رستم کیانی نے قائد اعظم کے رائٹرز کو دیئے گئے انٹرویو میں رد و بدل کر کے اپنا مقصد پورا کیا۔ اس جھوٹ پر آج تک پردہ ہی پڑا رہتا، اگر مشہور ناول نگار سید فضل احمد کریم فضلی کی صاحبزادی سلینہ کریم اس پر تحقیق نہ کرتی۔ نوٹنگھم، برطانیہ کی رہنے والی اس عظیم خاتون نے رائٹرز کے دفاتر میں جا کر اصل ریکارڈ کو تلاش کیا اور اس بددیانتی کا پول کھولا۔ وہ کہتی ہے کہ جسٹس منیر نے جب قائد اعظم کا فقرہ تبدیل کیا تو جیسے کوئی چور، اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے ویسے ہی اس سے انگریزی کی ایک ایسی غلطی ہو گئی جس سے مجھے شک گزرا کہ یہاں ضرور بددیانتی ہوئی ہے۔ سلینہ کریم نے جب اصل فقروں اور جسٹس منیر کے بددیانتی والے فقروں کا موازنہ کیا تو جھوٹ سامنے آ گیا۔ قائد اعظم نے کہا تھا: “The Government of Pakistan can only be a Popular Representative Democratic form of Government.” ۔ پاکستان کی حکومت ایک مقبول، نمائندہ جمہوری حکومت ہو گی۔ اب جسٹس منیر کا بدلا ہوا بددیانت فقرہ ملاحظہ کریں۔ “The new State would be a Modern Democratic state with Sovereignty Resting in People.”۔ نئی ریاست ایک جدید، جمہوری ریاست ہو گی جس کا اقتدارِ اعلی عوام کے پاس ہو گا۔ قائد اعظم کے منہ میں ان الفاظ کو ڈالنا اقتدارِ اعلی عوام کے پاس ہو گا دراصل قائد اعظم کی زبان سے قراردادِ مقاصد کے اس تصور کی تکذیب مقصود تھی، جس میں لکھا گیا تھا کہ اقتدارِ اعلی اللہ سبحان و تعالی کے پاس ہے اور حکومت اس کی امین ہے۔ اس جھوٹ کو سلینہ کریم نے اپنے مضمون “Secular Jinnah: Munir’s Big Hoax Exposed” (سیکولر جناح: منیر کا بڑا فریب بے نقاب) میں 2005 میں بے نقاب کر دیا۔ اس کے بعد وہ خاتون چین سے نہ بیٹھی اور اس نے ایسی لاتعداد بددیانتیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے 2010 میں اپنی کتاب شائع کی، جس کا نام تھا۔ “Secular Jinnah & Pakistan: What the Nation Doesn’t Know”۔ (سیکولر جناح اور پاکستان :حقائق جو قوم نہیں جانتی)۔ آج، دس سال بعد اس کتاب کا اضافہ شدہ ایڈیشن آیا ہے جسے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (UMT) لاہور نے شائع کیا ہے۔ یہ ایک اضافہ شدہ ایڈیشن ہی نہیں بلکہ ایک مکمل علیحدہ کتاب ہے۔ پہلا ایڈیشن 317 صفحات پر مشتمل تھا جبکہ موجودہ ایڈیشن 322 صفحات کے اضافے کے ساتھ 639 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا دسواں باب “The Myths of Jinnah” (جناح کے بارے میں تراشی گئی خرافات) اور تیرھواں باب “Anecdotal Myths” (خرافاتی چٹکلے)، دونوں قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں تخلیق کئے گئے جھوٹے تصورات کا پول کھولتے ہیں۔ میں نے Myths کا ترجمہ خرافات اس لئے کیا ہے، کیونکہ یہ لغت میں موجود ہے اور یہاں صحیح فِٹ ہوتا ہے۔ ان خرافات میں سے مشتے از خروارے، ایک جھوٹ پر مبنی چٹکلہ یہاں لکھ رہا ہوں۔ یہ وہ الزام ہے جس پر خود قائد اعظم نے بڑے دکھ سے ردعمل ظاہر کیا تھا۔ قائد اعظم کے بارے میں یہ تصور عام کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک سیکولر اور غیر مذہبی تھے۔ اس کا جواب قائد اعظم نے 1945 میں انتہائی دکھ سے دیا۔ “Allegation made against me and my personal life are tissues of falsehood which are sought to be broadcast in Hindu press.” ۔ وہ الزامات جو مجھ پر یا میری ذاتی زندگی پر لگائے جاتے ہیں، وہ دروغ گوئی کے ٹشو ہیں جنہیں ہندو پریس میں اچھالا جاتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم پر سیکولر، لبرل اور کافرانہ طرزِ زندگی اپنانے کے جھوٹے الزامات قیامِ پاکستان سے پہلے ہندو اخبارات میں چھپتے تھے۔ لیکن آج یہ جھوٹے الزامات، پاکستان کے سیکولر، لبرل میڈیا میں شائع ہوتے ہیں۔ کس قدر حیران کن بات ہے کہ قائد اعظم کو بدنام کرنے میں ہندو پریس اور سیکولر طبقات، دونوں کا مفاد کس قدر مشترک ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here