مسلم لیگ نون کے سربراہ شہبازشریف کے موجودہ اپنے کارکنوں کے خلاف مسلسل بیانات اور کارکنوں کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں جن کو پارٹی سے نکالا جارہا ہے۔جس سے ثابت ہورہا ہے کہ نوازی اور شہبازی لیگیوں میں کشمکش کا سلسلہ جاری ہے جس میں نوازی اپنے قائد نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔جن کی ترجمان مریم نواز ہیں جبکہ شہبازی جو صرف بعض مفاد پرست نمائندگان تک محدود اور جنرلوں کی حمایت کر رہے ہیں جنہوں نے جنرل مخالف کارکنوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے۔جن کے سرغنہ شہبازشریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف ہیں جو ہر حالت میں پنجاب کے وزیراعلیٰ اور والد شہبازشریف کی وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔بلاشبہ پاکستان آج انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے جس میں سیاسی پارٹیاں دن بدن کمزور ہو رہی ہیں۔جھتے بازوں کو جمع کیا جارہا ہے مذہبی سخت گیر اور بنیاد پرست تحریک لبیک پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں جن کو ملکی سیاست میں مسلط کیا جارہا ہے۔جن کے ہاتھوں سے اب تک70ہزار پاکستانی شہری اور چھ ہزار فوجی جوان اور سینکڑوں پولیس اہلکار مارے اور زخمی ہوچکے ہیں۔مزید برآں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جبکہ سیاسی پارٹیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جارہا ہے جس میں پی ڈی ایچ کی تقسیم میں سیاسی اثاثوں کے لیے المیہ ثابت ہوا ہے۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی مسلم لیگ نون کو نوازیوں اور شہبازیوں میں تقسیم کرنے کی سازش جاری ہے جس میں لیگی کارکنوں کی جلسوں اور جلوسوں میں شرکت پر بے توقیری اور بے عزتی کی جارہی ہے۔جنرل مخالف کارکنوں کو پارٹی سے نکالا جارہا ہے۔جن کی ہر دلعریز قیادت مریم نواز کی قصدر جلسوں اور جلوسوں سے باہر رکھا جارہا ہے۔جنہوں نے اپنے بیانوں اور تقریروں میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کو ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔جس کی وجہ سے عمران خان بے قابو ہوچکے ہیں۔جنہوں نے ملک کو استحکام کی بجائے انتقام گاہ بنا دیا ہے جس سے پاکستان کمزور ترین ریاست بن چکی ہے۔مریم نواز نے جنرل فیض حمید پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے منصوبہ بندی کے تحت پاکستان میں انتشار اور خلفشار پیدا کیا ہے جس سے پاکستان خانے جنگی کا شکار ہونے جارہا ہے۔چونکہ عمران خان بری طرح ناکام اور نااہل ثابت ہوا جس کاالزام موجودہ جنرلوں پر عائد ہورہا ہے جس کی وجہ سے بعض وطن پرست جنرل حضرات عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں لہٰذا انہوں نے شہبازشریف کو اقتدار دینے کا ارادہ کیا ہے جس کے آڑے نوازشریف آرہے ہیں۔جو سمجھ رہے ہیں کہ یہ عارضی رعایت ہے جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ حسب معمول اقتدار کو ہٹانے اور دبانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔جس کے باوجود نوازی شہبازی لیگی ہر حالت میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔چاہے اقتدار فوجی بوٹوں پر رکھ کر دیا جائے۔جو ملکی عوام کے نظریہ سیاست کے خلاف ہو۔بہرکیف اگرچہ سابقہ تین مرتبہ منتخب وزیراعظم نوازشریف کا سیاسی آغاز ضیائی مارشلا کے دور میں ہوا تھا جنہوں نے80کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی گیارہ سالہ آمریت کا ساتھ دیا تھا جس طرح زیڈ اے بھٹو شہید گیارہ سال تک جنرل ایوب خان کی آمریت میں شامل ہے جنہوں نے ایوبی دور میں پاکستان کی جمہوری قوتوں کی نمائندہ اور صدارتی امیدوار قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی مخالفت کی تھی۔جس کا آخر کار90کی دہائی میں خاتمہ ہوا۔جب وزیراعظم نوازشریف کا جنرلوں کے نامزد صدر غلام اسحاق کے ساتھ اختیارات پر جھگڑا پیدا ہوا جنہوں نے وزیراعظم نوازشریف کی منتخب حکومت کی برطرف اور پارلیمنٹ کو برخاست کر دیا تھا جس کو بعد میں عدلیہ نے بحال کر دیا تھا۔جس کے خلاف جنرل کاکڑ سامنے آگئے جنہوں نے عدالتی فیصلے کی پرواہ کیے بغیر نواز حکومت کی بحالی کو تسلیم نہ کیا جس کی پاداش میں نوازشریف کو بروقت طاقت گھر بھیج دیا گیا۔جس میں نوازشریف کے انکار پر صدر غلام اسحاق کو بھی صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔جس کے بعد نوازشریف نے سنت موسوی پر عمل کرتے ہوئے فرعونی طاقتوں کی ملکی معاملات میں مداخلت پر مخالفت شروع کردی جو جنرل کاکڑ جنرل آصف جنجوعہ، جنرل کرامت جنرل مشرف، جنرل راحیل اور جنرل باجوہ تک جاری وساری ہے۔جس کو پورے ملک میں بہت پذیرائی ملی ہے جس سے پاکستان کی فیڈریشن کو سیاسی فائدہ پہنچا ہے۔جس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ مسلسل سازشیں برپا کرتی نظر آتی ہے کہ جس کی پاداش میں اب تک نواز شریف کو تین مرتبہ اقتدار سے ہٹایا گیا۔سزائے، پھانسی، عمر قید اور جلاوطن کیا گیا۔قیدوبند کی صعوبتوں میں مبتلا رکھا ہے جس کی وجہ سے آج نواز شریف مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کا باغی ہو چکا ہے۔جن کا اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پورے ملک میں پسند کیا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف ہوچکی ہے۔جو نواز شریف اور مریم نواز کی بجائے شہباز شریف کو ترجیح دے رہی ہے۔لہذا آج نوازیوں اور شہبازیوں میں نظریاتی جنگ جاری ہے۔جس سے پارٹی میں دراڑ پیدا ہو رہی ہے حالانکہ نوازشریف کے بیانیہ کے ساتھ لیگی کارکنوں کی اکثریت ملے جن کی ملک کی تمام جمہوری قوتیں حمایت کر رہی ہیں۔چونکہ شریف خاندان پر سیاست کی بجائے رشتے داری غالب ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ نون کے بارے میں منفی بحث ومباحثے ہو رہے ہیں ورنہ نوازشریف پنجاب کا واحد لیڈر ہے جس کو پورے ملک کے عوام پسند کر رہے ہیں جنہوں نے ملک کے سیاستدانوں کا وہ خواب پورا کیا ہے۔جس کا دہائیوں سے انتظار تھا کہ کب پنجاب سے قیادت ابھرے گی۔جو پاکستان کے عوام سے فوجی آمریت اور قبضوں سے جان چھڑائے گی جو آج نواز شریف کی شکل میں مل چکی ہے۔جس کو اسٹیبلشمنٹ خاندان کے نام پربلیک میل کر رہی ہے۔جو شاید کامیاب نہ ہو پائے۔بشرطیکہ نون لیگی نواز شریف کے بیانہ پر ڈٹے رہے جس کی ملک کو شدید ضرورت ہے۔جس کو عوام سمجھ چکے ہیں کہ ان کا کون دشمن ہے۔جو عوام کے حقوق کا غاصب ہے۔لہٰذا ایسے موقع پر پاکستانی عوام کو صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔بحرحال موجودہ جلسوں اور جلوسوں میں نوازی لیگیوں کا غلبہ ہے جن کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعروں سے شہبازشریف پریشان ہوچکے ہیںجو جلسوں اور جلوسوں میں لیگیوں کے نعروں کے خلاف اپنے بیانوں اور تقریروں سے مذمت کر رہے ہیں جس کا سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا ہے۔لہٰذا اس کا فائدہ یا نقصان عدلیہ پر دبائو یا عدلیہ کی آزادی یا قانون کی حکمرانی قائم ہو اور ملکی معاملات میں طاقتور اداروں کی مداخلت بند ہو جس سے پاکستان میں خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ واپس آئے۔پاکستان بھی دنیا کی دوسری ریاستوں کی طرح بربریت اور مہذبیت اپنا پائے جسکو گزشتہ70سالوں سے گورنر جنرلوں اور فوجی جنرلوں نے روک رکھا ہے۔جن کا اعمالوں اور کرداروں سے ملک ٹوٹا جو اب پھر مداخلت سے دوچار ہے جس کے لیے عوام کو اپنی احتجاجی تحریکوں کا سہارا لینا پڑے گاجو جمہوریت کی بحالی کی ضامن ہوتی ہیںجس سے پاکستان کے سیاسی معاشی اور سماجی مسائل حل ہونگے۔
٭٭٭