جنگ بغیر فتح یاب، خون بغیر سرخ رو !!!

0
6

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ورلڈآرڈر ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے جس میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، ملٹی ٹریلین ملٹی نیشنل کارپوریشنز، سینکڑوں بڑی بڑی یونیورسٹیاں، میڈیا پلیٹ فارمز، ہیلتھ کیئر، مائٹی ملٹری، قانون ساز ادارے، عدلیہ اور انتظامیہ یعنی وائیٹ ہاس جیسے اہم ستون شامل ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس ساری اسٹیبلشمنٹ کو اس کی حدود وقیود میں رکھنے کیلئے سیاسی پارٹیوں کی تعداد صرف دو تک محدود ہے۔ امریکی جمہوریت اپنی ساری سپر پاور کے باوجود کسی تیسری سیاسی پارٹی کی گنجائش آج تک پیدا نہیں کر سکی۔ احقر بہاری کا یہ شعر اسکی تھوڑی سی تشریح کرتا ہے۔
یہ راز کی باتیں ہیں اس کو سمجھے تو کوئی کیوں کر سمجھے
انسان ہے پتلا حیرت کا مجبور بھی ہے مختار بھی ہے
سے دنیا کی سپر پاور امریکہ کا نام نہاد مضبوط ترین ورلڈ آرڈر ایک غیر معمولی بحران کا شکار ہے۔ امریکی جمہوریت کی منافقت سے تنگ تو بہت سے لوگ رہے ہیں لیکن ان سب نے سسٹم سے باہر رہ کر اصلاحات کی کوششیں کیں اور ناکام رہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی بھرپور ذہانت سے کام لیتے ہوئے، دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک کا انتخاب کیا اور عوامی انداز اختیار کرتے ہوئے، امریکہ کے نسبتا غریب طبقے کو اپنی پاور بیس بنایا۔ انہوں نے، کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی سخت مخالفت کے باوجود، ہلری کلنٹن کو شکست دے کر سسٹم کیلئے بہت سے گھمبیر مسائل کھڑے کر دئیے۔ ناتجربہ کاری کی وجہ سے کے انتخابات میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے اوچھے ہتھکنڈوں سے شکست تو کھا گئے لیکن دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کو بند کرکے، امریکہ کو صحیح راستے پر لانے کی بنیاد ڈال گئے۔ روائتی میڈیا کی کھلی دشمنی بھی ان کی شکست کا سبب بنی لیکن صدر موصوف نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے، اس سال ایک ایسی انہونی کو ممکن بنا دیا جو ناقابلِ تصور تھا۔
اس مرتبہ، اسٹیبلشمنٹ نے صدر ٹرمپ کیلئے درجنوں مشکلات کھڑی کیں۔ مقدمات کی بھرمار، کردار کشی کی یلغار، روائتی میڈیا کے کھلم کھلا جانب داری، حتی کہ قاتلانہ حملوں تک بات جا پہنچی لیکن اس مردِ آزاد نے انتہائی منظم اور زہریلی اسٹیبلشمنٹ کو ایک مرتبہ پھر ایسی شکست سے دوچار کر دیا کہ بڑے بڑے جغادری انگشتِ بدنداں رہ گئے۔ کامل شطاری نے کیا خوب کہا ہے کہ!
عزم و استقلال ہے شرط مقدم عشق میں
کوئی جادہ کیوں نہ ہو انسان اس پر جم رہے
اس مرتبہ بھی ٹرمپ کی انتخابی مہم روائتی میڈیا سے زیادہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے چلائی گئی۔ نو سو سے زائد جلسے بھی کئے گئے لیکن پوڈکاسٹ نے اس کا پیغام امریکہ کے طول و عرض میں بہت مثر انداز سے پہنچایا۔ ایکس (twitter) کے مالک ایلان مسک اور بابی کینیڈی جیسے جہاندیدہ افراد نے ٹرمپ کا ساتھ دے کر مخالف قوتوں کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا کردیا۔ اس مرتبہ ٹرمپ نے مسلمانوں کو بھی اپنی مہم کا حصہ بنایا۔ دیگر اقلیتیوں کے ساتھ بھی اس کا رویہ پہلے سے کافی بہتر رہا۔ مرزا غالب کے اس شعر پر توجہ دیتے ہوئے، ٹرمپ نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو بہتر طریقے سے برداشت کیا۔
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
آج کل صدر ٹرمپ کی شدید مخالف اسٹیبلشمنٹ کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ایک مرتبہ پھر کہرام بپا ہے۔ بڑے بڑے پنڈت اور جغادری، طرح طرح کی تاویلوں سے اپنی خفت مٹا رہے ہیں۔ ایسا خوفناک ماحول بنایا جارہا ہے، جیسے ٹرمپ کی جیت نے قیامت برپا کردی ہو۔ بہرحال اب یہ سسٹم کچھ بھی کر لے، اسے اپنی ناجائز اجارہ داری کو ترک تو کرنا ہی پڑے گا۔
صدر ٹرمپ سے مقابلے کے دوران نام نہاد ذہین اور قابلِ اعتماد میڈیا کی بے بسی دیکھ کر، کافی خوشی ہوتی رہی۔ میڈیا کا پورا زور تھا کہ ووٹرز کا نمبر مسئلہ، جمہوریت (Democracy) قرار پائے۔ امریکہ کی ایک میجر پارٹی کے صدارتی امیدوار کو جمہور دشمن قرار دے دینا بھی ایک گھنانا عمل ہے اور شاید اسی لئے، ووٹ دینے والوں نے کہا کہ جناب ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تو اکانومی ہے۔ معیشت کی خرابی کی وجہ سے مہنگائی کا مقابلہ کرنا دشوار ہے اور آپ لوگ اپنی فرضی جمہوریت کو بچانے کے چکر میں ہیں۔ عوام انہیں ذوق کا یہ مشہور شعر سناتے رہے۔
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ توتجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
صدر ٹرمپ کی مہم کی ایک مزید اچھی بات یہ رہی کہ فیملی اور سوشل اشوز پر ان کا مقف، بیحد واضح انداز میں اسلامی اقدار کے قریب رہا ہے۔ امید ہے وہ اپنے دورِ حکومت میں ایسے عملی اقدامات بھی کریں گے جو ہماری اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں زیادہ ممد و معاون ثابت ہونگے۔ غالب کے اس شعر کے مطابق،
گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج میں، پاکستانی باشندوں نے شاید ہی کبھی اتنی دلچسپی لی ہو، جس قدر اس مرتبہ لی۔ بائیڈن انتظامیہ نے، پاکستان کے رجیم چینج آپریشن کی حمایت کر کے، وہاں کے عوام کی بھاری اکثریت کو اپنا مخالف کر لیا تھا۔ پاکستانی تارکینِ وطن نے، ان کی اس بھیانک حرکت کا بدلہ، ٹرمپ کی مہم کی دامے درمے قدمے سخنے بے پناہ مدد کر کے لیا۔ امید ہے ٹرمپ انتظامیہ، پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی دخل اندازی ہمیشہ کیلئے ختم کرے گی اور اس جرم میں ملوث محکمہ خارجہ کے ملازمین کو قرارِ واقعی سزا دے گی۔
آخر میں ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے انکا وہ وعدہ دہرانا چاہتا ہوں کہ وہ کوئی بھی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے اور اس وقت جاری ساری جنگوں کا خاتمہ کریں گے۔ آرزو لکھنوی نے ان کیلئے تو ہی کہا تھا کہ
جنگ بغیر فتح یاب، خون بغیر سرخ رویوں جو کبھی ہوا نہ تھا، یوں ہی وہ کام ہو گیا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here