سابق صدر پاکستان بار اور شعلہ بیان مقرر بلوچستان کے معروف وکیل نے انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر مرحومہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستان کی عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی موجودگی میں عدلیہ پر خاکی دبائو پر برملا بات کی ، آزادی کے نعرے لگا کر علی احمد کرد کی بات کی مکمل تائید کی۔آج دنیا میں عالمی عدالتی نظام میں126نمبر رینکنگ کا ذکر کیا۔130ممالک میں126پر آنے والی رینکنگ پاکستان کے لئے نہایت شرمندگی کی بات ہے علی احمد کرد نے اس امر کی نشاندہی کی عدلیہ کی موجودہ حالت اس دبائو کیوجہ سے ہے جو راولپنڈی نے عدلیہ پر ڈالا ہوا ہے اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج عبدالعزیز صدیقی نے اپنی اعترافی تقریر میں بھی کہا تھاجس کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے کو کھونا پڑا۔لیکن اس بات کو چھپانا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو کسی کپڑے سے چھپانا ہے ۔جب تک عدلیہ میں طاقتور حلقوں کی مداخلت جاری رہے گی عدلیہ آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر رہتی آئیگی اور جب تک معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا۔وہ معاشرہ تباہی اور بربادی سے بچ نہیں سکے گا۔عاصمہ جہانگیر اپنی زندگی کی آخری سانس تک انسانی حقوق کے حقوق نسواں اور عدلیہ کی آزادی کیلئے جدوجہد کرتی رہی کیونکہ انسانی حقوق کے حصول کیلئے آزاد عدلیہ کا وجود لازمی ہے جس کے بغیر انسانی حقوق کا حصول ایک خواب ہی رہے گا۔آج تک بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں آج بھی اداروں کی حراست میں ہے۔یا اغواء کرکے غائب کر دیئے گئے ہیں۔عدلیہ کی وہ کاوشیں ناکام رہی ہیںجس میں گمشدہ افراد کا مقدمہ آج بھی اعلیٰ عدالتوں کے فائیلوں میں مدفون ہے ،آج بھی مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں اپنے وارثوں کی خبر کے منتظر ہیں۔اسلام آباد تک چاچا مجید اور گمشدہ افراد کے خاندان کی خواتین اور بچے اپنے لوگوں کی برآمدگی کیلئے لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں۔لیکن ایوان اقتدار میں بیٹھے بے ضمیر لوگ خاموش رہے کیونکہ انکے مفادات کا تحفظ انکی پہلی فوقیت تھی۔طاقتور حلقہ انکے اوپر حاوی رہے مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے انہوں نے ظالم کے سامنے خاموش رہنے اور سر جھکانے کو فوقیت دی۔جسٹس قاضی فیض عیٰسی نے جمہوریت کی بقا کو ملکی بقا کے ساتھ مشروط کیا اور عدلیہ کی جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں ناکامی کی نشاندہی کی اور اعتراف کیا کہ جب بھی جمہوریت پر جب بھی شب خونن مارا گیا۔ماسوائے ایک آدھ مرتبہ کے جمہوریت کو بحال کرنے کیلئے فیصلے نہیں کئے بلکہ جسٹس منیر کے نظریعہ ضرورت کے فلسفے کی پیروی کرتے ہوئے آمروں کے غلبہ کو تسلیم کرتے ہوئے آئین پاکستان کی پامالی میں آمروں کا ساتھ دیا۔بدقسمتی سے جمہوریت کے تسلسل ٹوٹنے کیوجہ سے انسانی حقوق کا تحفظ بھی متزلزل رہا اور جسٹس قاضی عیٰسی نے اسلام میں عدل وانصاف کی فضلیت کی نشاندہی کی انسانی حقوق کی ابتدا اسلام کے ظہور کے ساتھ ہوئیں۔1400سو سال پہلے چارٹر آف رائیٹس(حقوق)وہی تھا جو آج بھی موجود ہے۔جسٹس قاضی عیٰسی نے عدلیہ کی آزادی کیلئے چلائی جانے والی تحریک کو فقطہ وکلاء کی تحریک کے بجائے پوری سول سوسائٹی کی تحریک کہا جسکے نتیجے میں افتخار چودھری بحال ہوئے تھے۔جسٹس فائز عیٰسی نے جسٹس در اب پٹیل کے شاندار کردار کی تعریف کرتے ہوئے انکے بلوچستان سے تعلق کی نشاندہی بھی کی اور یہ بھی تسلیم کیا کہ آج عالمی رینکنگ میں پاکستان139ممالک میں130ویں نمبر پر آگیا ہے۔اور علی احمد کرد سے معذرت کرتے ہوئے انکی تصحیح کی علی احمد کرد کی جو شیلی اور جذباتی تقریر کی بعد جسٹس فائز عیٰسی کی مدبرانہ اور معطل تقریر نے سامعین کو مسحور کیا اور پہلی مرتبہ جسٹس فائز عیٰسی کی علمیت اور اہلیت دنیا کے سامنے آئی اور آج عاصمہ جہانگیر کی روح کو تسکین ملی ہوگی کہ مرنے کے بعد بھی انہیں کے نام سے منسوب دن پر انسانی حقوق اور عدالتی نظام کے اصلاح کی بات ہوتی رہی۔ایسا محسوس ہوا کہ عاصمہ جیلانی مری نہیں آج بھی وہ اپنا مشین جاری رکھے ہوئے ہے۔ایسے لوگ کبھی مرتے نہیں اپنے ذکر سے زندہ وجاوید رہتے ہیں۔
٭٭٭