میرے والد کو چھ اولادوں میں سے دو سے سب سے زیادہ پیار تھا ۔ ایک میری چھوٹی بہن کنیز فاطمہ جو چودہ سال قبل چل بسیں اور ایک میرے چھوٹے بھائی مولانا الفت حسین جو 15 مئی 2023 کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔والد نے ہمیشہ مجھے یہی نصیحت کی کہ چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا اور وصیت میں بھی یہی لکھا اور فرمایا۔ میں نے سب بہن بھائیوں کی حسب توفیق خدمت کی ۔ صلہ رحمی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ تاہم میں امریکہ میں آنے کے بعد سے اتنی خدمت نہیں کر سکا جتنی مجھے کرنی چاہیے تھی یہ قلق مجھے دوری کے باعث ضرور رہیگا اور پھر امریکہ میں مقیم دوسرے بہن بھائیوں کی طرح پیاروں کے دیدار آخر سے بھی محرومی رہی ۔ میرے لیے یہ دن بہت اُداسی کا دن تھا جب میرے بھائی نے وفات سے چار روز قبل کہا، بھائی صاحب آپ نے میرا بہت خیال رکھا ۔ میری دونوں کم سن بیٹیوں کا خیال رکھنا۔ یتیمی کے بعد آپ ہی انکا سہارا ہونگے۔ ایسے لگتا تھا چار روز قبل میرے بھائی بھانپ گئے تھے کہ انکا وقت آخرت آگیا ہے۔ میرا نہیں خیال اس گفتگو کے بعد وہ کسی سے بولے ہوں۔ شائد یہی انکی وصیت تھی۔ میرے بھائی بہت پڑھے لکھے، عالم باعمل، خوش اخلاق، ہنس مکھ، ملنسار، مہمان نواز ، غمگسار، یتیم پرور، سادات کے خدمت گزار، مساجد و مدارس کے بانی، پر اثر ذاکر حسین ع، منجھے ہوئے مدرس اور خدمت گزارا نہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔تواضع و فروتنی میں اپنی مثال آپ تھے۔ بہت غیرت مند تھے۔ انتہائی متدین، پرہیزگار، صحیح العقیدہ تھے ۔ تدین کا یہ عالم تھا کہ انکے سرطان کے علاج کیلئے میں نے کچھ معمولی سی رقم بھیجی تو جب شفایاب ہوئے تو مجھے فون کیا کہ بھائی صاحب آپکی امانت بچ گئی ہے وہ کہاں واپس کروں ؟ تو میں نے کہا واپسی کی ضرورت نہیں تو وہ بھی غریبوں میں تقسیم کر آئے۔ خطابت کے میدان میں درخشندہ ستارہ ہونے کے باوجود کبھی مجلس مظلوم کربلا کا نذرانہ طے نہیں کیا۔ خود مجلس کے بعد نوحہ پڑھتے اور دونوں ہاتھوں سے زور زور کا ماتم کرتے تھے۔ اپنی نیاز یا شہریہ کا ستر فیصد غریبوں پر خرچ کرتے ۔ ہمارے یتیم خانہ کے سینکڑوں یتیموں کے کفیل و سرپرست تھے۔ بیوگان کی سرپرستی کررہے تھے۔ عرصہ دراز سندرال، کوٹلہ جام، بھکر اور قم میں میرے رومیٹ بھی رہے۔ پکے نمازی، متہجد اور قارئی قرآن تھے۔ انہوں نے سینکڑوں علما شاگرد چھوڑے ہیں۔ وہ خود میرے شاگرد بھی تھے۔ از حد احترام کرتے۔ بیماری کے باوجود جب تک ہوش میں رہے کبھی نماز قضا نہ کی۔ روزانہ باقاعدہ تلاوت قرآن کرتے تھے۔ بزرگ علما کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اللہ نے انہیں خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ سات آٹھ شہروں میں محرم پڑھتے تھے۔ مصائب پڑھنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ میری شدت مصروفیت کے باعث تمام مہمانوں کی خاطر مدارات مولانا الفت حسین سندرالوی اور میرے پھوپھی زاد بھائی مولانا شوکت حسین سندرالوی کیا کرتے تھے۔ جب مجھے انتقال کے بعد انکا چہرہ دکھایا گیا توبڑا مطمئن پایا انہوں علالت کے دوران بڑا صبر کیا۔ آخری چند سال بیماری کے باعث بڑی تکلیف میں گزرے۔ وہ ایک کامیاب زندگی گزار کر گئے ،اللہ انکی عاقبت اچھی فرمائے آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭