پاکستان اس وقت انتہائی بدامنی کے دور سے گزر رہا ہے۔ عمران خان،زرداری،نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ملک کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔ انکی ذاتی انا سے مملکت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ عالمی سطح پر جگ ہنسائی اور تماشہ بن چکے ہیں۔ علما عید کے چاند پر ہم بحث کر رہے ہوں، خدارا ملک و قوم پر رحم کریں۔ ریاست کا جو تصور تھا کہ ریاست جوگی ماں کے جیسی ، ہر شہری سے پیار کرے گی، قوم کی بچیاں روٹی کے لئے چوکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتی ہیں، اپنا جسم بیچتی ہیں، کیا یہ ملک اس لئے حاصل کیا تھا؟ کیا لاکھوں لوگوں نے قربانیاں اس لئے دی تھیں کہ طبس خاندان انکی قسمت کے فیصلے کریں؟ کیا لاالہ کا خواب اس لئے دیکھا تھا کہ چند لٹیرے ملک لوٹ کر قوم کی بچیوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیں۔ کیا کبھی ان لوگوں نے سوچا ہے کہ اتنا مال جمع کرکے عاقبت سنوار سکیں گے۔ جانا تو خالی ہاتھ ہے۔ پھر تجوریاں کس کام کی۔ امریکہ ، چائینہ کی سرد جنگ میں ہم سینڈوچ بنے ہیں۔ سعودیہ اور خلیجی ممالک امریکی غلامی سے باہر نکل آے ۔ ہم آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ اور دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ مالیاتی اداروں کے لئے ہم ایک مذاق اور تماشا ہیں۔ آئی ایم ایف ہمیں ہاکی کے بال کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر دھکیل رہا ہے۔کبھی کہتا ہے نئے ٹیکس لگائیں، کبھی تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھائیں۔ نہ ہم کرپشن ختم کرتے ہیں اور نہ شاہانہ اخراجات کم کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی پر آئیندہ مشکل وقت ہے۔جکومت نے انہیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز کو تشدد، جلائو ،گھیرائو پر اُبھارنے والے ، دراصل انکے لیڈرز ہیں جو یا تو جیلوں میں ہیں یا گرفتاریوں کے ڈر سے روپوش ہیں۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کا کہنا ہے کہ آرمی ہائوس میں توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اسلئے سیاسی کارکن کو جلسے اور جلوسوں میں اعتدال کا مظاہرہ کرناچاہئے۔ عمران خان اگر اعتدال کا راستہ اپنائیں تو آئیندہ حالات انکے لئے بہتر ہوسکتے ہیں۔ مہنگائی سے تنگ عوام کا ردعمل دن بدن شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز کو تشدد، جلا ئوگھیرا ئوپر ابھارنے والے ، دراصل انکے لیڈرز ہیں جو یا تو جیلوں میں ہیں یا گرفتاریوں کے ڈر سے روپوش ہیں۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کا کہنا ہے کہ آرمی ہائوس میں توڑ پھوڑ اور جلا ئوگھیرائو سے ھمارا کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے سیاسی کارکن کو جلسے اور جلوسوں میں اعتدال کا مظاہرہ کرناچاہئے۔ قومی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو آرمی سیکرٹ ایکٹ کی تحت سزائیں دی جائیں گی۔ ایک سال پہلے پی ٹی آئی پرو آرمی تھی۔ ن لیگ آرمی مخالف تھی۔ اب پرو آرمی ہے۔ ان کی مفادات اپنی ذات تک محدود ہیں۔ جن کا عوامی مشکلات سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیا قیامت کی نشانی ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی آرمی ہائوس پر حملے کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں جو دہشت گردوں کی سپورٹرہیں۔ہمیشہ اسلام آباد اور پورا ملک جام کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے لیکن آج پی ڈی ایم کی حکومت ہونے کے باوجود اسلام آباد بند نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کا استعفیٰ لئے بغیر ایک روزہ دھرنا ختم کرکے گھروں کو روانہ ہوگئے۔قومی اسمبلی میں بلاول کی دھواں دار تقریر اور سپریم کورٹ کے باہر مریم نواز، امیر مقام ،محمود خان اچکزئی، فضل الرحمن کی عدلیہ اورچیف جسٹس کے خلاف تقاریر، قومی اسمبلی میں عمران خان کو پھانسی کا مطالبہ ؟ کور کمانڈرز کانفرنس میں جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہائوس پر حملہ کے مجرموں سے سخت نمٹنے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پی ڈی ایم حکومت مخالف صحافیوں کو اور پی ٹی آئی رہنمائوں کو گھروں سے اٹھا رہی ہے۔تقریبا سینئر قیادت اسوقت پابندصلاصل ہے۔ ملک میں کوئی ایسا قد آور لیڈر نہیںجو ان سب کو ایک ٹیبل پر بٹھا سکے۔ پکڑ دھکڑ کے اس عمل نے تلخیاں مزید بڑھا دی ہیں۔ گزشتہ ہفتے چیف جسٹس نے انتہائی عقل و دانش سے پی ڈی ایم کے غبارہ سے ہوا نکال دی۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم کے جلسہ میں قائدین کی زبان اور مریم نواز کی تقریر انتہائی سخت تھی۔ ججز کے خلاف غلیظ زبان استعمال ہوئی۔ حالانکہ یہ وہی ججز ہیں جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کو راستہ فراہم کیا۔ آدھی رات کو عدالتیں کھول کر پی ڈی ایم کو اقتدار فراہم کیا۔ سہولت کاری کی، اب بھی تو وہی ججز ہیں جنہوں نے اقتدار کی مسند پی ڈی ایم کو فراہم کی۔ ان سبھی جماعتوں میں چور ٹھگ، شرپسند اور لٹیروں کی بھر مار ہے۔ بدکردار اور ملکی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کی اکثریت ہے۔ ان سے جان چھڑانی چاہئے۔ ملک میں امن و سلامتی، اخلاقی رواداری ، انصاف، روزگار اور نظریاتی مملکت کا احیا صرف جماعت اسلامی کے ہاتھوںممکن ہے۔ اسلئے آئیندہ الیکشن میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر ملکی سالمیت کی بقا اور قومی وقار کو مضبوط بنائیں تاکہ ہماری آئندہ نسلیںسکھ کا سانس لے سکیں۔ قارئین !جب تک قرآن و سنت کو سپریم لا قرآن نہیں دیا جائے گا،ملک، آئین ، عدلیہ اور آرمی کی خلاف آوازیں اٹھتی رہیںگی، جب تک قرآن کو قانون نہیں بنایا جاتا، عمران خان، نواز شریف ،فضل الرحمن اور زرداری کیسے ڈرامے باز ملک و قوم سے تبدیلی، آزادی ،مساوات ،ریاست مدینہ کے نام پر دھوکہ دہی کرتے رہیںگے۔
٭٭٭