اگرچہ علم قانون ایک سائنس کا درجہ رکھتا ہے کہ جس نے دنیا بھر میں ہماں وقت ریاست کو بچایا ہے اگر کسی ملک میں قانون نہ ہو تو وہ ریاست بنانا ریاست کہلاتی ہے خاص طور پر جدید ریاست کا وجود قانون کے بغیر بے معنی بن چکا ہے جس میں بادشاہوں آمروں جابروں ظالموں کی بجائے قانون کی حکمرانی ہوتی ہے جس کے پیروکار وکلاء اور جج صاحبان ہوتے ہیں جو اس علم کی بدولت انسانوں کو ہر طرح انصاف دلواتے ہیں جو غیر جانبداری اور اقربا پروری سے پاک ہوتے ہیں جن کی بدولت آج دنیا بھر میں جدید ریاستوں میں قانون کی حکمرانی قائم ہے جس کو عام زبان میں جمہوریت اور آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ لہذا وکیل اور ڈاکٹر میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے اگر ڈاکٹر کسی مریض کی جان بچاتا ہے تو ایک وکیل بھی ایک معصوم اور بے گناہ شخص کو پھانسی جیسے پھندے سے بچاتا ہے قانون کے مطابق بے اختیاروں، بے بسوں اور لاوارثوں کو حق دلواتا ہے تاہم پاکستان میں وکالت اور عدالت بدنام ہوچکی ہے جس میں عدالت دنیا بھر کی بدنام زمانہ عدالت کہلاتی ہے جس کا بدنامی میں140ممالک میں شمار ہو رہا ہے جو ہر قانون کے طالبعلم کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو بیرون ملک قانون دان کہلانے سے کتراتے ہیں ورنہ ڈاکٹر اور وکیل دو بڑے پیشے ہیں جس کا حامل شخص اپنے پیشے پر فخر کرتا ہے۔ مگر پاکستان کا وکیل پاکستانی عدلیہ کی طرح اہمیت کھوہ بیھٹا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان کے وکیلوں اور برطانوی پڑھے لکھے وکیلوں میں فرق صاف نظر آرہا ہے کہ ہر مالدار شخص اپنے بچے کو پاکستان کی بجائے برطانیہ میں قانون کی تعلیم دلواتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ برطانیہ اور پاکستان کے نافذ قانون میں زمین وآسمان کا فرق ہے حالانکہ جب وہ برطانیہ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والا وکیل پاکستان میں آتا ہے تو وہ پاکستان کے قانون کے مطابق پریکٹس کرتا ہے۔ لیکن وہ پاکستانی وکلا سے بالاتر سمجھا جاتا ہے چاہے اس کی پریکٹس صفر کیوں نہ ہو۔ چونکہ پاکستان برطانوی کالونی رہ چکا ہے جو آج بھی کھیل کرکٹ، تعلیم اور دوسری عادات اطوار سے کالونی نظر آتا ہے۔ کہ جس میں پاکستان کا تعلیم یافتہ اور برطانوی تعلیم یافتہ میں فرق پایا جاتا ہے۔ چاہے وہ پاکستان کا قانون دان اے کے پروہی جیسے مشہور زمانہ وکلا کیوں نہ ہوں ایسے میں مجھے اپنے ایک گہرے دوست یاد آگئے جو بہتر مشہور وکیل میں جو ہائی کورٹ کے جج اور ایڈووکیٹ جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے جب بارایٹ لاء کا سرٹیفکیٹ لیا تو وہ اب سابقہ جج یا ایڈووکیٹ جنرل کی بجائے بیرسٹر لکھتے ہیں تاکہ عام عوام میں پڑھا لکھا وکیل سمجھا جائے۔ بہرکیف مضمون کا موضوع وکالت عدالت میں سیاست کا ہے کہ پاکستان کے تمام مشہور وکلاء نے قانون کو سیاست کا چوں چوں کا حربہ بنا دیا ہے کہ جن کی وکالت میں سیاست کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جو قانون کو سیاست میں ڈال کر سیاست کر رہے ہیں کہ جنہوں نے لاتعداد سیاسی عدالتی فیصلوں کی حمایت یا مخالفت کی ہے جس میں مخصوص نشستوں کا آج کی عدالت کا فیصلہ جٹس منیر کے فیصلے میں کوئی فرق نہیں پایا جارہا ہے کہ جب جسٹس منیر احمد نے گورنر جنرل غلام محمد کے غیر قانونی فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرکے ملک میں آمریت اور لاقانونیت کی بنیاد رکھی تھی آج پھر سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کردیا کہ ایک الیکشن کمیشنن ضابطوں اور قانون کے مطابق جس پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہ لیا ہو یا قانون کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کی حقدارانہ تھی اسے مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا جس کا سلسلہ اب چل نکلے گا جب کوئی بھی دولت مند شخص اپنی پارٹی بنا کر پاکستان کے آزاد پارلیمنٹرین کو خرید کر اپنی پارٹی کو پارلیمنٹ کا حصہ بنا دے گا جس کے بعد الیکشن کمیشن برائے نام ایک نام رہ جائے گا جس کا کوئی ضابطہ اور قانون نہیں ہوگا ہر طاقتور پارلیمنٹ پر مالک ہوگا جو مکمل طور پر انتشار اور خلفشار کا باعث بنے گا۔ جو شاید بن چکے کہ آج پاکستان کو ٹوٹنے کی آواز ہر جنرل اور جج کے منہ سے نکل رہی ہے جو1971کی طرح اپنے ہاتھوں سے پاکستان کو بکھیرنے پر تلے ہوئے ہیں لہذا وہ دن دور نہیں ہیں جب یہ جنرل اور جج ملک میں انتشار اور خلفشار پیدا کرکے برطانیہ اور امریکہ میں آباد نظر آئیں گے۔ جس کے اشارے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کو محب وطن روک نہیں پا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭