ریاستی رٹ اور امن کا قیام!!!

0
56

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور وفاقی وزیر امور کشمیر انجینئر امیر مقام نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن کے قیام کے لئے ریاست کی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ ملک میں جوں جوں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے توں توں حکومتی ایوانوں کی جانب سے ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کے بیانات آ رہے ہیں۔ اس سے مفر نہیں کہ کسی بھی ملک کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی ریاستی رٹ اور آئین اور قانون کی بالادستی سے مشروط ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں شہریوں کو آئین و قانون کے مطابق حقوق کی فراہمی کو یقینی بنا کر ریاست کی رٹ قائم کی جاتی ہے۔ تمام جمہوری معاشرے شہریوں کو اپنے جذبات اور احساسات کے پرامن اظہار کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔ شہریوں، اپوزیشن کے جلسے، جلوسوں اور پرامن احتجاج کو سیفٹی والو سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ شہری پرامن احتجاج سے اپنے جذبات حکومتی ایوانوں تک پہنچاتے ہیں تو حکومت عوامی جذبات اور قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں اقدامات اور لائحہ عمل ترتیب دیتی ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ چلن رہا ہے کہ لگ بھگ تمام سیاسی جماعتیں جب تک اپوزیشن میں ہوتی ہیں تب تک آئین اور قانون میں فراہم کردہ شہری آزادیوں کی دھائی دیتی ہیں مگر جونہی اقتدار میں آتی ہیں تو اپوزیشن کے ساتھ شہریوں کی آئینی آزادیوں کو ریاستی رٹ سے نتھی کر کے عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عمو می تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے اس کی دلیل پنجاب بار کونسل کے سیاسی گرفتاریوں کے خلاف ہڑتال کے اعلان کی بھی دی جا رہی ہے۔اس تاثر کو یکسر مسترد کرنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ موجودہ حکومت اپوزیشن کی آواز دبانے کے لئے مسلسل مختلف حربے استعمال کر رہی ہے یہاں تک کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ایڈووکیٹ جنرل نے معززعدالت کو واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ حکومت تحریک انصاف کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت نہیں دے گی عدالت حکم جاری کرنا چاہتی ہے تو کر دے!۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ تحریک انصاف گزشتہ ایک سال سے جلسے کی اجازت کے لئے قانونی چارہ جوئی کر رہی ہے۔ انتظامیہ کا اگر ایک افسر جلسے کی اجازت دیتا ہے تو اس سے اعلی عہدیدار اجازت نامہ منسوخ کر دیتا ہے۔ حیران کن امر تو یہ بھی ہے کہ حکومت کا یہ رویہ اب صرف تحریک انصاف تک محدود نہیں رہا گزشتہ روز جماعت اسلامی نے مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافے کے خلاف حکومت سے اجازت لے کر احتجاج اور دھرنے کا اعلان کیا مگر مقررہ روز سے ایک دن قبل ہی حکومت نے اجازت دینے کے بعد بھی ناصرف اسلام آباد جانے والے تمام راستے کنٹینرز لگا کر بند کر دیے بلکہ جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ۔ یہی نہیں حکومت نے اسلام آباد سمیت پورے پنجاب میں دفعہ 144کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شرپسند عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا اور ریاستی رٹ قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہی نہیں ملک و قوم کے بھی بہترین مفاد میں ہے مگر حکومتی اقدامات آئین اور قانون کے دائرے میں ہونا چاہیئں۔ حکومتی رٹ کا مطلب ہی آئین اور قانون کی عملداری یقینی بنانا ہے۔ یہ بھی درست سہی کہ ریاستی رٹ امن کے قیام کی پہلی شرط ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ امن طاقت کے استعمال سے نہیں آئین قانون پر عمل درآمد کرکے اور اداروں کی تکریم سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ آئین و قانون کے خلاف اقدامات کسی سیاسی جماعت تنظیم یا شہریوں کی طرف سے ہوں یا پھر حکومت کی طرف سے، امن کے بجائے انتشار اور بے یقینی کو جنم دیتے ہیں۔ ریاستی رٹ قائم کرتے وقت یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ سیاسی مقاصد کے لئے شہریوں کو احتجاج سے محروم کرنے سے عوام کے اندر حکومت مخالف جذبات کا لاوا ہی نہیں پکتا رہے گا بلکہ احساس محرومی کے شکار شہریوں کو ملک دشمن قوتیں بھی ملکی مفاد سلامتی کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو آئین و قانون پر عملدرآمد ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اوراپوزیشن اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بہتر ہو گا حکومت اپوزیشن کو طاقت کے بل بوتے پر دیوار سے لگانے کے بجائے قومی مفاد میں مثبت مذاکرات کی دعوت دے جیسا حکومت جماعت اسلامی کے معاملے میںکر بھی چکی ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام اور امن کے لئے ضروری ہے کہ حکومت شرپسند عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے اور سیاسی جماعتوں کو با مقصد مذاکرات میں انگیج کرے تاکہ بنیادی عوامی مسائل حل ہونے کے ساتھ سیاسی انتشار کا خاتمہ بھی ممکن ہواور حکومت یکسوئی کے ساتھ قومی ترقی پر تمام تر توجہ مرکوز کر سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here