لیڈر بن گئے گیڈر !!!

0
88
رمضان رانا
رمضان رانا

راقم الحروف کا تعلق ترقی پسندوں کے قبیلے سے ہے جس کا آغاز نویں کلاس سے شروع ہوا جب مجھے بس جلانے میں دھر لیا گیا تھا۔
ہر وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں ترقی پسند طالبہ رہنما معراج محمد خان، مختیار علی خان، علی مختار رضوی، نفیس صدیقی اور دوسرے طلبا رہنمائوں کا پورے ملک میں طلبا تحریکوں میں طوطی بولتا تھا۔ جب کالج میں آیا تو ترقی پسندوں کے ساتھ مزید رشتہ مضبوط ہوگیا جن کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا جس کے پلیٹ فارم پر اسلامیہ کالج کراچی کی طلبا یونین کا دو مرتبہ آرٹس اور لا کالج طلبا یونین کا صدر اور انسٹرکالجیٹ باڈی کا چیئرمین منتخب ہونے کا موقع ملا جس کے دوران کئی مرتبہ جبل یاترا نصیب میں آئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب1975میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی تو ہم نے طلبا پلیٹ فارم پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جس میں نیب کی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں طالبعلموں اور مزدور رہنمائوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا جنہوں نے ایک طویل مدت تک جیلوں میں زندگی گزاری مگر کسی بھی کارکن اور قیادت نے اپنی جدوجہد کے خلاف معافی نامہ لکھ کر باہر نکلنے کو ترجیح نہیں دی ، جس کا مظاہرہ آج ہمیں پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں میں نظر آرہا ہے کہ ہر روز پی ٹی آئی کے 9مئی کے سانحہ میں گرفتار قیادت وفاقی نامے لکھ لکھ کے جیلوں سے رہا ہو رہی ہے جوکہ نہایت بزدلانہ عمل ہے۔ جس کا مشاہدہ ماضی کے اگر تلہ سازش کیس یا حیدر آباد سازش کیس جیسے جعلی اور من گھڑت مقدمات میں نظر نہیں آیا ہے کہ جب شیخ مجیب، ولی خان، غوث بخش بزنجو، مورج محمد خان، افسراسیاب اور دوسرے سیاستدانوں کو گرفتار کیا گیا تو کسی بھی قیادت یا کارکن نے معافی نامہ لکھا ہو مگر آج پی ٹی آئی کی قیادت کی وفاقی ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جس کو بیان کرنا مشکل ہے۔ شاید یہ وجہ ہے کہ عمران خان جن کے حکم پر اور خواہش پر9مئی کا سانحہ برپا ہوا جو اب تک گرفتار نہیں کیے گئے ہیں جس کا کہنا ہے کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو بغاوت 9مئی سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی جس کو دیکھ کر شاید ریاست ڈر چکی ہے۔ جبکہ اگر وہ واقعی پاپولر ترین ہوتا تو ان کی گرفتاری پر سینکڑوں فوجی تنصیبات پر حملہ آوروں کی بجائے لاکھوں کی تعداد میں لوگ تمام بڑے شہروں کو بند کردیتے جو کبھی نہ ہوا جب بھی انہوں نے اپنے کارکنوں سے اپیل کی تو چند سو یا چند ہزار لوگ باہر نکلے جس میں لانگ مارچ اور جیل بھرو تحریک کے موقع پر دیکھنے کو ملا ہے جن کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے جس میں لاہور کورکمانڈر ہائوس یا جناح ہائوس پر چند ہزار اور کراچی میں دو سو افراد سڑکوں پر باہر نکلے تھے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی پاپولرٹی صرف اور صرف میڈیا کی بھڑکوں تک محدود رہی ہے برعکس ترکی کی قیادت اردگان کو دیکھیں کہ آبادی کے لحاظ سے کم آبادی والے ملک ترکیہ میں17لاکھ لوگوں کا اجتماع ہوا جو ایک تاریخی اجتماع تھا جبکہ عمران خان کا اجتماع صرف ہزاروں تک محدود رہا ہے مگر پھر بھی وہ پاپولر کہلایا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے لیڈر بن گئے گیڈر جو روزانہ جیلوں سے رہائی پانے کے لئے معافی نامے لکھ لکھ کر رہا ہو رہے ہیں جوکہ قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کہ اگر کسی قیادت نے واقعی قانون توڑا ہے تو اسے سزا واقعی ملنا چاہئے چاہے وہ پروفیسر اسی پر کرپشن کا یا پھر ڈاکٹر راشدہ پر کورکمانڈر کے ہائوس پر حملے کی شہ کیوں نہ ہو مگر ججوں نے حسب معمول اپنی عدالتوں میں ضمانتوں، رہائیوں کا جمعہ بازار لگا رکھا ہے کہ جس کی وجہ سے9مئی کا سانحہ برپا کیا گیا کہ جس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنی قیادت کے حکم پر فوجی اڈوں، چھائونیوں، بیرکوں ہیڈکوارٹروں، کورکمانڈر ہائوسوں اور یادگاروں پر حملے کیئے جس کا بھارت کے ساتھ جنگوں سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے جس میں عمران خان سمیت پوری قیادت شریک ہے جن کے حکم پر کارکنوں نے بغاوت برپا کی ہے جس پر اب قیادت معافیاں مانگ مانگ کر سیاست سے لاتعلق ہو رہی ہے جبکہ کارکن فوجی عدالتوں میں سزائیں پا رہی ہیں۔ بہرحال لیڈر بن گئے گیڈر کی رہائی پر حکومت وقت کو فوری طور پر تمام گرفتار شدگان کو بھی رہا کردینا چاہئے جن کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قیادت کا حکم مانا تھا جس طرح ایک جنرل کا حکم ایک ماتحت افسر اور سپاہی مانتا ہے جب جنگی جرائمز کا مقدمہ بنتا ہے تو وہ مقدمہ صرف اور صرف جنرل اور ماتحت افسران پر بنتا ہے سپاہیوں پر جنگی جرائمز کا کوئی مقدمہ نہیں بنتا ہے لہذا قیادت کی رہائی کے بعد کارکنوں کو گرفتار کرنا یا گرفتار شدگان کو رہا نہ کرنا نہایت زیادتی ہوگی۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here