طاقتور ہونے اورطاقتور بننے میں بڑا فرق ہے، نظام کا طاقتور ہونا شہریوں کے محفوظ ہونے کے تاثر کو فروغ دیتا ہے تو کسی گروہ کی طاقتور بننے کی کوشش اتنا ہی معاشرے کو اتنا ہی غیر محفوظ بناتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر کا سانحہ بھی ایک طاقتور نظام کو چیلنج کرتے ہوئے طاقتور بننے کی کی کوشش کرنے والے عناصر کی کارستانی تھی۔بدقسمتی سے پاکستان میں ان کا نام لینا ممنوع ہے اور ہم ان کو پیار سے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں جنہوں نے نظام کو مضبوط دیکھنے کی بجائے خود کو مضبوط بنا کر نظام کو اپنے مرہون منت بنانے کی عظیم کاوشوں کو سلسلہ شروع کیا۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں 16 دسمبر 1971کو ملک دولخت ہوگیا۔ہماری اسٹیبلشمنٹ جن کو کمزور فرد اور معاشرے کا بوچھ قرار دیتے تھے، آزاد ہونے کے بعد آج ان کے معاشی اعشاریے ہماری عظیم سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی پیش کرتے ہیں۔ دیار غیر میں مختلف مواقعوں پر کبھی کبھار کسی بنگلادیشی شخص سے ٹکر ہوجائے یا اپنی کسی غلطی پر انہیں معذرت کریں تو وہ لمحہ بھر نگاہیں آپ کے چہرے پر جما لیتے ہیں، جیسے سوال کر رہی ہوں کہ کاش یہ معذرت آج سے پچاس سال پہلے کر لی جاتی تو ہم دولخت ہونے سے بچ جاتے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جو اسٹیبلشمنٹ آج ملک کے انتخابی نظام میں اس قدر مضبوط عمل دخل رکھتی ہے کہ حکومت ان کی مرضی سے بنتی ہو، ان کی عدم مداخلت یا مداخلت سیاسی جماعتوں کی فتح کا باعث بنے، تو آج سے پچاس برس قبل جب سوشل میڈیا کا نام و نشان نہیں تھا، کنٹرول اخبارات تھے، تو اندھیر نگری کے اس دور میں کس طرح ممکن ہوا کہ بنگلا دیشی رہنما مجیب الرحمن انتخابات باآسانی جیت گیا، کوئی دھاندلی ہوسکی اور نہ ہی کوئی ریٹرنگ آفیسر اغوا ہوا۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام کو گرانے کے لیے یہ آخری دھکا تھا جس کا اثر مشرقی پاکستان پر بھی پڑا اور یوں پاکستان کی سیاسی قوتوں کو گرانے کی کوششوں میں پاکستان کا وجود ٹوٹ گیا۔مشہور بات ہے کہ جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو کو ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے، مگر اس سانحہ کے بعد اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو دوبارہ اقتدار کے جنازے پر سوار تو ہو گے مگر اب اس جنازے کے نیچے کندھے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تھے، پاکستان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ مضبوطی ملک کی کمزوری میں بدل گئی مگر ہم نے سبق نہ سیکھا، آج پھر ملکی سیاسی نظام کو گرانے کے لیے وہی مشق دہرائی جارہی ہے، اللہ پاک خیر کرے، پاکستان پر رحم کرے۔اسی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے صورتحال اب یوں ہوتی جارہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کی وجوہات پر بات کرنا معیوب سمجھا جانے لگا ہے، کوئی صحافی یا لکھاری اس طرف رخ کرے تو غداری کے سرٹیفکیٹ کی تلوار اس کے سر پر لٹکا دی جاتی ہے مگر یہ قوتیں شاید اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ درحقیقت صحافی یا لکھاری کسی بھی معاشرے یا ریاست کے اتنے ہی اہم جزو ہیں جتنا کہ ریاست کے سرحدوں کے محافظ ہوں۔ فوج ہتھیار کے ذریعے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے تو صحافی یا لکھاری اپنے قلم سے ریاستی تاریخ کی حفاظت کرتا ہے۔
٭٭٭