آخری نصیحت!!!

0
155
انصار الرحمن
انصار الرحمن

ہر شخص کو خواہ اسکا تعلق کسی بھی ملک سے ہو کسی بھی قوم سے ہو یا اسکا کوئی بھی مذہب ہو یہ چاہتا ہے کہ اسکو پرسکون زندگی نصیب ہو رات کو وہ سونے کے لئے لیٹے تو اسکے ذہن پر مشکلات اور پریشانیوں کے مسائل کا اثرہام نہ ہو صبح جاگے تو ہنستا اور مسکراتا ہوا اٹھے۔ان خواہشات اور آرز وٹوں کی تکمیل صرف ایک صورت میں ہی ممکن ہے وہ یہ کہ وہ ہر حال میں رحمتہ للعالمین جناب رسول اکرمﷺ کی ہدایات پر دل وجان سے عمل کرتا ہو۔مسائل مشکلات اور پریشانیوں کے سبب اگر نیند نہیں آتی ہو تو نیند لانے والی گولیاں کھا کر سونا کوئی زندگی نہیں ہے۔آہستہ آہستہ اسکا نتیجہ خوفناک صورتحال میں سامنے آجاتا ہے جناب رسول اکرمﷺ کی ہدایات بہت آسان ہیں اور ہر شخص ان پر عمل کرسکتا ہے۔ہر شخص خواہ وہ جھوٹا ہو یا بڑا کسی بھی معاملہ میں دوسروں کے لئے مشکلات اور مسائل نہ پیدا کرے۔جب بھی کسی سے ملے مسکراہٹ کے ساتھ پہلے مشکلات اور مسائل پیدا نہ کرے۔جب بھی کسی سے ملے مسکراہٹ کے ساتھ ملے اور سلام کرنے میں پہل کرے۔ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہمارے اعمال اور طریقے ایسے ہیں کہ ہم دوسروں کے لئے سکون چین اور راحت کا سبب بن سکتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں چلے جائیں اور وہاں کے رہنے والوں کے طور طریقوں اور رابطوں کو یہ غور دیکھیں کہ کیا وہاں جھوٹ بے ایمانی وعدہ خلافی چغلی غیبت اور بہتان سے لوگوں نے اپنی زندگیوں کو محفوظ کرلیا ہے۔یا وہ ان برائیوں اور آلائشوں میں بھرپور طور پر ملوث ہیں۔اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو وہاں دیکھ دیکھ سکون چین اور راحت کی زندگی کیسے میں آسکتی ہے۔انسانی زندگی میں ہر شخص کو نشہ آور اشیاءاور خاص طور پر شراب سے اپنے آپ کو بہت دور رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ان میں ملوث ہونے سے کبھی بھی کوئی مسئلہ ہرگز ہرگز حل نہیں ہوسکتا ہے۔تو بھلا سکون اور چین کیسے نصیب ہوگا۔روزمرہ کے معاملات میں لین دین ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے۔اگر اسمیں منافع خوری ہی مقصود ہوا اور دوسروں کی مشکلات کو پیش نظر نہ رکھا جاتا ہو تو جو بھی نتیجہ ہوسکتا ہو اسکو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اپنا کام نکالنے کے لئے دوسروں کو دنیا دلانا اور ان کی جیب بھرنا بہت بڑا ظلم ہے اس طرح دوسروں کا حق مارا جاتا ہے۔اور برائی کا راستہ دوسروں کو دکھایا جاتا ہے۔شرم وحیا انسانیت کا زیور ہے اور سکون و چین کا بڑا ذریعہ ہے اگر وہ بھی بے شرمی اور بے حیائی میں ڈھل جائے تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے۔حضرت عیٰسی علیہ اسلام کی پیدائش کے قبل اللہ تبارک وتعالیٰ کا بھیجا ہوا فرشتہ حضرت مریم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے اللہ رب العلمین نے بھیجا ہے تاکہ میں تم پر دم کر دوں اور تم صاحبہ اولاد ہو جاﺅ۔یہ سن کر انہوں نے کہا کہ مجھے تو کبھی بھی کسی مرد نے ہاتھ میں نہیں لگایا تو یہ کیسے ممکن ہے فرشتہ نے کہا کہ پروردگار کا حکم ہے۔اس نے دم کر دیا تو اس وقت حاملہ ہوگئیں اور اولاد کی پیدائش کی اہل ہوگئیں۔حاملہ ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ اے کاش میں اس کے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگ مجھے بھول چکے ہوتے۔حضرت لوط علیہ سلام کی قوم نے جس بے حیائی اور بے شرمی کو اپنایا اور فروغ دیا اسکی وجہ سے وہ عذاب الٰہی کے بڑے مستحق ہوگئے تھے۔(جاری ہے)

اس قوم کو عذاب الٰہی میں مبتلا کرنے کے لئے رب العلمین کے بھیجے ہوئے فرشتے انسانی شکل میں حضرت لوط علیہ سلام کے ہاں پہنچنے والا انسانی شکل میں تھے۔ان کو دیکھ کر انہوں نے سمجھا کہ نئے مہمان آئے ہیں۔وہ ان کی خاطر واردات کرنے لگے۔ان کے لیے گائے بچھڑا تل کر لائے۔کہ وہ کھالیں انہوں نے نہیں کھایا یہ دیکھ کر حضرت لوط علیہ سلام ڈر گئے۔فرشتوں نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم رب العلمین کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور آپ کی قوم نے جس بے حیائی اور بے شرمی کو فروغ دیا ہے۔اسکی سزا کے طور پر ان کو تباہ وبرد کرنے کے لئے آئے ہیں۔اس قوم پر جو عذاب الٰہی نازل ہوا تھا اسکے آج بھی بڑی بڑی بلڈنگوں کے کھنڈرات کی شکل میں دیکھنے والوں کے لئے عبرت کی داستان بنے ہوئے ہیں۔
عام طور پر ماں باپ کے مقابلہ میں اولاد کا زیادہ خیال رکھتی ہے اسی لیے بچہ ماں سے زیادہ مانوس ہو جاتا ہے وہ اسکی ذرا سی تکلیف سے بے چین ہوجاتی ہے۔اور ہر لمحہ اسکا پورا خیال رکھتی ہے۔بچہ جب مچھ سنہ کا ہو جاتا ہے تو بیٹھنے لگتا ہے۔
اس وقت اسکی تربیت کا دور شروع ہو جاتا ہے۔جو مائیں تربیت کے اس دور میں غفلت برتتی ہیں اور اپنا زیادہ وقت ٹیلی وژن اور موبائل کے پروگرموں پر چپکی رہتی ہیں اور سوتے سوتے اسکا پیچھا نہیں چھوڑتیں صحیح معنوں میں اولاد کی تربیت نہیں کرسکتیں ان کو قدم قدم پر مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ماں باپ کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی پیار محبت اور ہمدردی کے زیورات سے آراستہ ہو اور ان کا ہر لمحہ دوسروں کے لئے پیار اور محبت بکھیرتا ہو۔جب وہ ذرا ہوش سنبھالتے ہیں تو وہ دل سے چاہتے ہیں کہ وہ اچھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔وہ جب اسکول جانے لگتے ہیں تو وہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔کہ وہ ناپسندیدہ اور برے بچوں سے دور رہیں جب وہ جوان ہو جاتے ہیں تو وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اچھے اور آسودہ خاندان میں ان کی شادی کریں۔ ان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ آنے والی بہو یا داماد ان کی آنکھوں کا تارا بنے۔اگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ان کا دل کیا کہتا ہوگا۔ان کو کس قدر تکلیف ہوتی ہوگی۔زمانہ بدل چکا ہے اور حالات تباہی وبربادی کی طرف جارہے ہیں۔بعض بہوئیں کہہ دیتی ہیں کہ ان کو ساس سسر کے ساتھ نہیں رہنا ہے۔چند لمحوں کے لئے سوچیں کہ ماں باپ اور خاص طور پر ماں جیسے اپنا چین اور سکون اولاد کے لئے عطیہ کردیا اسکو اس بدسولی سے کس قدر تکلیف ہوتی ہوگی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن شریف میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور احترام کا حکم دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات ناگوارا گزرے یا بری لگے تو اف تک نہ کرو اور نہ ہی ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرو۔بچوں کی تربیت اچھی طرح نہ کی جائے تو بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو پھر کسی کی بات نہیں سنتے کسی کا کہنا نہیں مانتے۔خود سر ہو جاتے ہیں اسکی اکثر مثالیں اکثر وبیشتر گھروں میں مل جاتی ہیں اور تربیت میں لاپرواہی کا نتیجہ سکے سامنے آجاتا ہے۔لڑکیاں ہوں یا لڑکے اگر کسی بات پر اپنے ماں باپ سے ناراض ہوتے ہیں تو ماں کا گھر جیسے سیکہ کہتے ہیں چھوڑ جاتے ہیں بعض اپنے رشتہ داروں کے ہاں جا کر رہنے لگتے ہیں اور بعض اپنے دوستوں کے ہاں اگر ان میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ ایسا ہرگز نہیں کرتے۔اسلئے کہ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔بعض نوجوان دوسرے مذہب کی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں۔عام طور پر کرسچین عیسائی لڑکیوں سے شادی کرنا بہت علم ہے ان کو اکثر لوگ اہل کتاب کہتے ہیں وہ اہل کتاب کیسے ہوسکتے ہیں وہ تو کھلم کھلا شرک ہیں۔جو لوگ حضرت عیٰسی علیہ اسلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہوں اور ان کی ماں حضرت مریم کو اللہ کی بیوی کہتے ہوں وہ اہل کتاب کیسے ہوسکتے ہیں وہ تو کھلم کھلا شرک ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے وہ نہ تو کسی کی اولاد ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی اولاد ہے۔اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔زندگی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو آخر ایک دن ختم ہوجاتی ہے۔ہر جاندار کو موت آجاتی ہے صحت ہو یا بیماری مرد ہو یا عورت اسکو اس دنیا سے جانا ہی ہوگا۔جب کوئی مر جاتا ہے اسکا انتقال ہو جاتا ہے تو پھر وہ چند لمحوں کے لئے دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا۔ساری مخلوق انسان ہوں یا جنات اس دنیا کے آغاز سے لیکر اختتام تک ایک دن جسکو قیامت کا دن یعنی یوم حشر کہتے ہیں۔اللہ رب العلمین کے حضور میں حاضر ہونا ہوگا۔اور مبتلا نا ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کے دوران کیا کچھ کرتے تھے۔کہاں جاتے تھے اور ان کی کیا کیا مصروفیات تھیں۔اس دن ہر شخص کے منہ پر مہر لگی ہوئی ہوگی وہ بول نہیں سکے گا اسکے ہاتھ بولیں گے اور پاﺅں گواہی دیں گے وہ کیا کچھ کرتے تھے۔ان کے ہاتھوں میں اللہ رب العلمین کے مقرر کردہ فرشتوں جنکو کراما کابتین کہتے ہیں اور جو ہر فرد کے ساتھ رہتے ہیں خواہ اسکا مذہب کچھ بھی ہو کسی بھی ملک اور قوم سے وابستہ ہو اسکی پیدائش سے لیکر وفات تک کے حالات اور معاملات ایک ایک لمحہ کی رپورٹ لکھی ہوگی۔ان کو اس وقت ایک لمحہ کی بھی اجازت نہیں ہوگی کہ اور کچھ کرسکیں اس رپورٹ میں بتلائے گئے اعمال کے پیش نظر جنت اور دوزخ کا فیصلہ ہوگا۔قیامت کے دن ساری مخلوق ایک میدان میں جمع ہوگی۔اس دن یہ ندی نالے پہاڑ اور دریا سمندر کچھ بھی نہیں ہوگا صرف چٹیل میدان ہوگا۔اس دن کے لئے جو یقینی طور پر آئے گا ہر شخص کو تیاری کر لینا چاہئے۔ہر شخص کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عقل اور سمجھ دی ہے اچھے اور برے کا تمیز دیا ہے۔اسکو اس نے آنے والے دن کے پیش نظر ہرگز ہرگز ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو کہ اللہ رب العلمین کی ناراضگی کا سبب بنے جنکو آسمانی کتابوں میں منع کیا گیا ہے اور جنکو بڑی تفصیل کے ساتھ اللہ رب العلمین کے نبیوں اور رسولوں نے بتلا دیا ہے۔اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ برائی ہمیشہ برائی رہتی ہے اور کبھی بھی اچھائی نہیں بن سکتی جھوٹ بے ایمانی اور دھوکہ بازی سے وقتی طور پر تو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن اسکا نتیجہ ہمیشہ ذلت اور رسوائی ہوگا۔اسلئے کبھی بھی کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہئے۔اللہ رب العلمین نے جناب رسول اکرمﷺ کے ذریعہ جو احکام دیئے ہیں ان پر عمل کرنا مشکل نہیں ہے۔صرف ہمت اور ادارہ کی ضرورت ہوتی ہے ہر شخص کو قرآن شریف ترجمعہ کے ساتھ ضرور پڑھنا چاہئے اسمیں قدم قدم پر پہچننے والی قوموں کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔بتلایا گیا ہے کہ وہ کیوں اللہ رب العلمین کی ناراضگی کا سبب بنے تھے۔
جناب رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا ایک ایک لمحہ ساری دنیا کے لئے رہنمائی کی عظیم الشان مثالیں ہیں ہر شخص خواہ اسکا تعلق کسی بھی قوم اور مذہب سے ہو اسکے ساتھ ایک شیطان جسکو ابلیس کہتے ہیں ضرور لگنا ہوا ہوتا ہے جو اسکو غلط کاموں اور ناپاک خیالات پر اکساتا ہے ان سب سے اپنے آپ کو پہچانا چاہیے۔اللہ رب العلمین نے جو عقل اور سمجھ دی ہے اسکو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے۔اور ہرگز ہرگز ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جو کسی بھی تکلیف اور پریشانی کا سبب بنے۔چند لمحوں کے لئے سوچیں اور غور کریں کہ اگر شرم وحیا غارت ہو جائے اور قدم قدم پر عورتوں کو مرد اور مردوں کو عورتیں نفسیاتی خواہشات پوری کرنے کے لئے ملنے لگیں تو معاشرہ کا کیا حال ہوگا۔پاکستان جو ایک اسلامی ملک ہے اور جسکا وجود کلمہ طیبہ پر ہوا تھا وہاں پہلے نفسیاتی خواہشات پوری کرتے اور ناچ گانا سننے کے لئے ہیرا منڈی اور………..جانا پڑتا تھا۔اب وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے اکثر جگہ خواہشات پوری ہو جاتی ہیں دنیا کی سپرپاور امریکہ کا حال دیکھ لیں وہاں ایک ریاست میں عورتوں کی شادی عورتوں کے ساتھ ہوتی ہے اور مردوں کی شادی مردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔خواہشات پوری کرنے کے لئے مردوں کو عورتیں اور عورتوں کو مرد کھلے عام مل جاتے ہیں۔شراب پینا اور پلانا بہت عام ہے اکثر ملکوں کے لوگوں کے لئے یہ تاثر عام تھا کہ امریکہ میں ڈالر درختوں پر لگے ہوئے ہیں عالمی وبا کرونا پھیلنے پھیلنے کے بعد دنیا بھر کے حالات ہی بدل گئے ہیں لاکھوں لوگ مر گئے لاکھوں لوگ اسپتالوں میں پہنچ گئے۔کاروبار ٹھپ ہوگئے تباہ وبرباد ہوگئے کھانے پینے کی اشیاءکی قلت ہوگئی۔اکثر لوگوں کی جابیں ہی ختم ہوگئیں۔گھروں سے نکلنا تقریباً بند ہی ہوگیا ہے بہت ضروری کاموں کے لئے گھروں سے باہر جاتے ہیں۔
جناب رسول اکرمﷺسے صحابہ کرام نے کہا کہ آپ اکثر قیامت کا تذکرہ کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اسکے آنے کے وقت کا کسی کو بھی نہیں معلوم صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی جانتے ہیں یہ بتلائیے کہ قیامت آنے سے قبل اس کے آنے کی کیا علامات ہوں گی جنکو دیکھ کر یہ اندازہ ہو سکے کہ اب قیامت قریب آچکی ہے۔حضور اکرم نے قیامت قریب ہونے کی علامتیں بتلائیں۔لوگ نمازوں کی ادائیگی میں غفلت برتنے لگیں گے امانت میں خیانت کرنے لگیں گے جھوٹ بولنا بہت عام ہو جائے گا۔معمولی معمولی باتوں پر دوسروں کو جان سے مارنے لگیں گے۔اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے۔دینی باتوں کی ادائیگی سے دنیا سمیٹیں گے۔ریشم کا لباس پہننے لگیں گے طلاقوں کی کثرت ہو جائے گی۔جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔عام طور پر ایک دوسرے پر تیمتیں لگانے لگیں گے۔بارش کے باوجود گرمی رہے گی اولاد کی خواہش کے بجائے اس سے دور رہنا چاہیں گے۔نیچے لوگ عیش وعشرت کی زندگی بسر کریں گے امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے۔امین امانت میں خیات کرنے لگیں گے۔عالم اور قادری اپنی بد کرداری کی وجہ سے بہت ہوں گے۔لوگ جانوروں کی کھال کے لباس پہنیں گے ان کے دل بدبودار ہوں گے۔سونا عام ہوجائے گا۔چاندی کی مانگ بڑھ جائے گی گناہ کے کام زیادہ ہونے لگیں گے اور امن کم ہوگا۔قرآن شریف کے نسخوں اور مسجدوں میں نقش ونگار بنانے کا رواج ہو جائے گا۔جس دن صور پھونکا جائے گا اس دن نہ ہی مال کام آئے گا اور نہ ہی اولاد اس دن گنہگار اپنے دونوں ہاتھ چبائے گا جس دن آسمان پھٹے گا لوگ قبروں سے نکلیں گے جس دن ستارے بکھر جائیں گے آسمان پگلھے ہوئے متابثہ کی طرح ہوگا۔پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہوجائیں گے۔اونچے اونچے مینار بنائے جائیں گے لیکن دل ویران ہوں گے۔شراب پی جائے گی شرعی ……..کو معطل کر دیا جائے گا جو لوگ ننگے بدن غیر مذہب ہوں گے وہ بادشاہ بن جائیں گے۔تجارت میں عورت مردوں کے ساتھ شرکت کرےگی۔مرد عورتوں کی نقالی کریں گے عورتیں مردوں کی نقالی کریں گی …..اللہ کی قسمیں کھائیں جائیں گی مسلمان بھی جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہوجائیں گے۔صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کیا جائے گا۔شرعی علم دینا کے لئے پڑھا جائے گا۔امانت کو لوٹ کا مال سمجھا جائے گا زکواة کو جرمانہ سمجھا جائے گا۔ذلیل آدمی قوم کا لیڈر اور قائد بن جائے گا۔آدمی اپنے ماں باپ سے بدسلوکی کریں گے شوہر بیوی کی اطاعت کریں گے۔گانے والی عورتوں کی تعظیم وتکریم کی جائےگی۔گانے بجانے اور موسیقی کے آلات کو سنبھال کر رکھا جائے گا۔انصاف بکنے لگے گا یعنی عدالتوں میں انصاف فروخت ہوگا۔پولیس والوں کی کثرت ہو جائے گی تو ان شریف کی تلاوت موسیقی کے انداز میں کی جائے گی۔امت کے لوگ پہلے والوں پر لعن طعن کریں گے۔سرخ آندھیاں آئیں گی، زلزلے آئیں گے۔اتنا عذاب آئے گا کہ لوگوں کی صورتیں بدل جائیں گی آسمان سے پتھر برسیں گے۔
دنیا کے اکثر ممالک میں لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات جو آسمانی کتابوں اور خاص طور پر قرآن شریف میں دیئے گئے ہیں اور پیغمبروں ا ور رسولوں کی ہدایات خاص طور پر جناب رسول اکرمﷺ کی ہدایات کے برعکس جو اعمال کر رہے ہیں اور جن بے حسی کا عمل……کردار سے ظاہر ہے وہ اللہ رب العلمین کے غصہ اور ناراضگی کا اظہار عالمی وبا کرونا کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
یہ سب کچھ پڑھنے سننے اور دیکھنے کے بعد ہمیں لازمی طور پر چاہئے کہ اپنے طور طریقے بدلیں اور جو بھی باتیں اور طور طریقے قرآن شریف کے احکامات اور جناب رسولﷺ کی ہدایات کے خلاف انجام دی جاری ہیں ان کو فوری طور پر چھوڑ دیں۔توجہ کرلیں اور آئندہ کے لئے پکا ارادہ کر لیں کہ کبھی بھی کوئی بھی غلط کام نہیں کریں گے اسی میں ہماری نجات ہے۔
آخر میں اپنے دوستوں بہن بھائیوں اور جاننے ملنے والوں سے ایک درخواست ہے وہ یہ کہ ان کے جو جاننے والے دوست احباب اور رشتہ دار اس دنیا سے جا چکے ہیں جنکا انتقال ہوچکا ہے ان کو روزانہ ایصال ثواب کر دیا کریں۔اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ قرآن شریف کی تلاوت کریں پڑھیں اور ثواب بخش دیا کریں جن لوگوں کو قرآن شریف پڑھنا نہیں آتا ان کو قرآن شریف کی جو بھی سورتیں اور آتیں یاد ہوں ان کو پڑھیں اور بخش دیں اور جو نہیں پڑھ سکتے وہ بار بار سبحان اللہ الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھ کر اسکا ثواب بخش دیں یہ ان کا حق ہے اور ہمارا فرض ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here