جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
گزشتہ ہفتہ نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی حوالوں سے بھی گونا گوں واقعات کے حوالے سے کافی ہنگامہ پرور رہا۔ اقوام متحدہ کا سالانہ جنرل اسمبلی اجلاس، ادارے کے 75 سال ہونے کے ناطے ڈائمنڈ جوبلی کے طور سے انعقاد پذیر ہوا، تاہم کرونا کی وجہ سے ممالک کے سربراہان نے ان کے اپنے ممالک میں رہتے ہوئے اجلاسوں سے خطاب کیا۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا خطاب نہ صرف پاکستانی قوم کی امنگوں کا ترجمان تھا بلکہ بین الاقوامی حوالوں سے بھی سراہا گیا۔ کپتان کے خطاب میں بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر آئینی قبضے اور مظلوم کشمیریوں پر قتل و غارت کےساتھ کشمیر ڈیمو گرافی کی تبدیلی کو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق، جنیوا کنونشن اور ہیومن رائٹس کے حوالے سے وار کرائم قرار دیتے ہوئے اس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی انتہائی خلاف ورزی قرار دینا اہمیت کا حامل تھا۔ مزید برآں فلسطین کے حوالے سے دو ریاستی حل اور القدس شریف کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے پر عزم کا اظہار، مسلم امہ کے احساسات کی واضح ترجمانی، اسلامو فوبیا کا بڑھتا ہوا رحجان، گلوبل وارمنگ اور کرونا کے حوالے سے عالمی موضوعات، کپتان کی تقریر کی ایک مدبر رہنما کی تقریر کے عکاس تھے۔ کپتان کے کرونا کے حوالے سے ریمارکس کہ اس وباءکے تدارک کیلئے عالمی اتحاد و اشتراک کی ضرورت تھی لیکن اس کے برعکس اہم طاقتوں نے اور مختلف ممالک نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، سیاسی، مذہبی، معاشی و مفاداتی الزام تراشی و مخالفت کیلئے اختیار کیا۔ نتیجتاً یہ وباءختم ہونے کی جگہ مزید ناچاقیوں، معاشی زوال اور بد امنی کا راستہ ثابت ہوئی۔ وزیراعظم کا یہ خطاب عالمی سطح پر بہت سراہا گیا لیکن بعض ممالک خصوصاً دنیا کے واحد اور ریاستی اسلام دشمن ملک بھارت کیلئے زہر ثابت ہوا، اور LOC پر بھارتی خلاف ورزیوں نیز کے پی میں دہشتگردانہ سرگرمیوں کی صورت میں سامنے آیا۔
سامنے تو مفرور سابق وزیراعظم نوازشریف کا اپوزیشن کی APC سے خطاب بھی آیا جو کسی پاکستانی رہنما سابق وزیراعظم کا نہیں بلکہ بھارت کے کسی پالتو ایجنٹ کا اظہار لگتا تھا، جبھی تو بھارتی اشرافیہ اور میڈیا نے اسے پاکستان اور پاکستانی اداروں کےخلاف تشہیر کا محور بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف کا یہ خطاب پاکستان کے ایک اور مفرور غدار الطاف حسین کا خطاب لگتا تھا جو بھارت اور راءکی مدد سے پاکستان دشمنی کا مرتکب ہوا ہے اور قوم کی لعنت و ملامت کا حقدار قرار پایا ہے۔ دیکھا جائے تو نوازشریف کا یہ خطاب نہ صرف اس کیلئے بلکہ اس کی اپنی پارٹی کیلئے بھی زوال اور قوم کی نفرت کا باعث بنا ہے۔ خود نواز لیگ کے متعدد رہنماﺅں اور منتخب افراد نے اس تقریر کو وطن اور اداروں سے دشمنی قرار دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاست میں نواز لیگ کا بڑا ووٹ بینک ہے لیکن بڑے میاں صاحب کی اس تقریر نے اس ووٹ بینک میں دراڑیں ڈال دی ہیں، نہ صرف یہ بلکہ چھوٹے میاں صاحب اور ن لیگ کے سمجھدار لوگوں کو بھی سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ ان سے اس خطاب کا کوئی جواز ہی نہیں بن پڑ رہا ہے۔ نواز لیگ کیلئے میاں صاحب کا بیان حلق کی وہ ہڈی بن گیا ہے جو نہ نگلتے بنتی ہے نہ اُگلتے بنتی ہے، خصوصاً ایسے وقت جب اپوزیشن متحد ہو کر حکومت مخالفت تحریک کیلئے کمر بستہ ہور ہی تھی۔
اپوزیشن کیلئے حلق کی ہدی تو شیخ رشید بھی بن چکا ہے جو موقع بموقع نئے انکشافات کر کے اپوزیشن کو بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ تازہ ترین حرکت شیخ رشید کا وہ بیان ہے جو اس نے اپوزیشن کے لیڈروں کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کے حوالے سے دیا۔ اس بیان کے بعد اپوزیشن کی صفوں میں جو بھونچال آیا اور میڈیا نے جو چسکہ بازی کی اس سے نہ صرف نواز لیگ متاثر ہوئی بلکہ دوسری جماعتوں کو بھی مشکل وقت پڑ گیا۔ بلاول، فضل الرحمن اور بعض دیگر افراد (مثلاً محمد زبیر) کی ملاقاتوں کا بھی پینڈورا باکس کُھل گیا۔ حکومتی حلقوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، الزام تراشیاں شروع کر دیں، میڈیا بھی مزے لینے لگا حتیٰ کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان کو ان ملاقاتوں پر وضاحت دینی پڑی، درحقیقت پارلیمانی پارٹی رہنماﺅں کی آرمی چیف سے یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ قرار دیئے جانے کیلئے مطلوبہ آئینی اقدامات کیلئے تھی لیکن اس شور شرابے کے باعث متعلقہ ایشو متنازعہ بنا دیا گیا۔ معاملہ اس حد تک چلا گیا کہ اپوزیشن خصوصاً شہباز شریف نے اسپیکر کے اس حوالے سے بلائے جانے والے کمیٹی اجلاس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا۔
شہباز شریف جو منی لانڈرنگ کے نیب کے ریفرنس میں گزشتہ چار ماہ سے ضمانت قبل از گرفتاری کا فائدہ اٹھا رہے تھے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ گلگت بلتستان کے ایشو پر کوئی غیر آئینی اشتراک نہیں کروں گا خواہ مجھے جیل جانا پڑے۔ ضمانت کینسل ہونا اور گرفتاری تو عدالت کا اختیار اور نیب کا استحقاق ہے لیکن اس کو ایک قومی ایشو سے نتھی کر کے حکومت مخالفت اور اداروں کے گٹھ جوڑ قرار دےدیا گیا۔
آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہماری سیاسی اشرافیہ قومی مفادات سے منحرف ہو گئی ہے، دراصل کئی عشروں سے اقتدار میں رہنے اور مال بٹورنے والے ان سیاسی و مفاداتی چوروں، لٹیروں کو یقین ہو چکا ہے کہ اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ نیب کے کیسز اور عمران خان کی حکومت کے کرپشن کےخلاف اہداف سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ شریف خاندان، لیگی رہنما، زرداری، بلاول اور دیگر سب ہی اس جال میں پھنس چکے تھے اب فضل الرحمن کا بھی نمبر آگیا ہے اور لگتا ہے کہ شیخ رشید کے مطابق جنوری تک ساری اپوزیشن جیل میں ہوگی۔ اپوزیشن کی حالت زار ویسے بھی سامنے آرہی ہے۔ میاں صاحب کی صاحبزادی، اس یقین کے بعد کہ اب ان کیلئے درپردہ مفاہمت کا کوئی راستہ نہیں اپنے والد کے احتجاجی و مزاحمتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان کے چچا مفاہمتی سیاست کے باوجود نیب کے ہتھے چڑھ چکے ہیں لیکن بھتیجی اور چاچا کے پیروکاروں میں تفریق واضح نظر آرہی ہے۔ ادھر پیپلزپارٹی نہ صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے بلکہ اس کی قیادت بھی نیب اور ایف آئی اے جیسےا داروں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے۔ اب تو مولانا ڈیزل بھی پکڑ میں ہیں گویا کپتان کی پی ٹی آئی کیلئے بظاہر سیاسی میدان کھلا ہوا ہے۔ بقول کپتان، پہلی بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر اور متحد ہیں، لیکن کیا کسی بھی سیاسی پارٹی یا حکومت کی مقبولیت محض اس بناءپر ممکن ہے؟ عوام اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں اور عوام میں مقبولیت کیلئے ضروری ہے کہ عوام کے بہتر معیار زندگی کیلئے ان کی بنیادی ضروریات، سہولتوں اور طرز زندگی کیلئے معاشی، معاشرتی مشاغل کو بہتر بنانے، امن و امان کے قیام، انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی کی ضروریات اس کی سکت سے باہر ہو چکی ہیں، تمام اشیائے ضرورت مہنگائی کی آخری حدوں تک پہنچ چکی ہیں حتیٰ کہ دوائیاں 9 سے 262 فیصد تک مہنگی ہو گئی ہیں۔ غریب تو غریب، متوسط طبقہ بھی اپنی آمدنی میں گزارہ نہیں کر سکتا۔ اس صورتحال نے عام آدمی کے کپتان کی موجودہ حکومت پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور جن امیدوں پر عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا وہ اب مایوسی میں تبدیل ہو گئی ہےں۔ کپتان کی وفاق میں آدھی سیکڑہ کابینہ اور صوبوں میں درجنوں وزراءاور مشیروں کی فوج مخالفین کے بخیئے اُدھیڑنے میں اپنا وقت ضائع کرتی ہے، میڈیا پر بحث مباحثوں میں میڈیا کی تماشہ بازی کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے لیکن عوامی مفاد کے اقدامات پر کوئی توجہ نہیں۔
ہمیں وزیراعظم کے مشن اور عوامی مفاد کے ہدف پر کوئی شک نہیں لیکن ان کی ٹیم کی حالت یہ ہے کہ مشیر صحت دوائیوں کی قیمت میں اضافہ کو مارکیٹ میں سپلائی کا موجب قرار دیتے ہیں، مشیر خزانہ ٹماٹر 17 روپے کلو قرار دیتے ہیں اور وزیر ہوا بازی پی آئی اے پر خود ساختہ بم گرا دیتے ہیں۔ بم تو بجلی اور گیس والے بھی عوام پر گرا رہے ہیں، میکرو معیشت اور خارجی امور میں بہتری اپنی جگہ مگر عوام میں مقبولیت اور حکومتی تسلسل کیلئے تبدیلی سرکار کو عوامی مفاد مقدم رکھنا ہوگا۔
٭٭٭