لندن:
مکہ شریف کی ایک قدیم ترین اور نایاب تصویر ڈھائی لاکھ ڈالر یعنی پونے چار کروڑ روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ اس تصویر کے پیچھے ایک کہانی پوشیدہ ہے کہ اسے ایک ایسے شخص نے کھینچا تھا جو مسلمانوں کا روپ دھار کر مکہ اور حجاز میں جاسوسی کی غرض سے داخل ہوا تھا۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے کرسچیان سنوک ہرگونج نے جدہ میں ولندیزی سفارت خانے میں رہتے ہوئے ڈیڑھ سال کی مدت میں دو کتابیں بھی لکھی تھیں۔
کرسچیان اسنوک نے انڈونیشیا میں ڈچ ایسٹ کمپنی کی توسیع کے دوران یہ مشن انجام دیا تھا۔ وہ اپنی اسلامی معلومات کی بنا پر سعودی عرب اور خلیج میں مقیم اس وقت انڈونیشیائی اہلکاروں کی جاسوسی کے لیے ایک موزوں ترین امیدوار بھی تھا۔
دوسری جانب ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو بااثر انڈونیشیائی امرا اور آج کے سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی سن گن لینے کی ذمے داریاں بھی سونپی گئی تھیں۔ قبل ازیں کرسچیان نے ہالینڈ کی لائیڈن یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ اور علوم کو اچھی طرح پڑھا تھا۔
منظرِ عام پر آنے والے اس کے دوستوں کو لکھے گئے خطوط میں تحریر ہے کہ عام مسلمان بھی اسے مسلمان سمجھتے ہیں اور اس پر اعتبار کرتے ہیں۔ اس نے اپنے سفر کے دوران مکہ اور مدینہ سمیت حاجیوں، زائرین اور ان کے رہن سہن کی تصاویر بھی لی تھیں۔ اس طرح کرسچیان سنوک ہرگونج کو مکہ جانے والا پہلا مغربی جاسوس یا اسکالر کہا جاسکتا ہے لیکن ہر جگہ اس نے اپنا نام ’عبدالغفار‘ ہی استعمال کیا تھا۔
سال 1873ء سے 1914ء تک جاری انڈونیشیائی جنگ میں اس نے بغاوت کچلنے کے لیے ڈنمارک حکومت کی رہنمائی بھی کی تھی۔ اس کی کھینچی ہوئی ایک یادگار تصویر نیویارک کے مشہور نیلام گھر سدبے میں ڈھائی لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی ہے جس میں قدیم شہرِ مکہ اور خانہ کعبہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کی تصاویر اور تحریریں اس کے اہلِ خانہ نے فروخت کے لیے پیش کی ہیں جو بہت مہنگی فروخت ہوئی ہیں۔